بیجنگ (گلف آن لائن) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہاہے کہ عبوری افغان حکومت کو تسلیم کرنے کے زیرالتوا سوال کو زیادہ دیر تک یوں ہی بغیر حل کے نہیں چھوڑا جاسکتا، خطے کو جوڑنے کا خیال انفراسٹرکچر کی طویل المدتی ترقی کے بغیر شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا،انسداد دہشتگردی میں پیش رفت، عبوری حکومت کی صلاحیت اور عالمی برادری کی ان کوششوں میں حمایت میں آمادگی پر منحصر ہے،لاکھوں افغان بچے بھوک اور فاقہ کشی کا سامنا کررہے ہیں،
افغان ہسپتالوں کو ادویات، آلات اور اہلکاروں کی شدید کمی درپیش ہے،افغانستان میں صورتحال کی مکمل تبدیلی، عالمی برادری خاص طور پر اس کے ہمسایوں کی جانب سے خصوصی توجہ کی متقاضی ہے،ماضی کی غلطیاں نہ دوہرائی جائیں ، ہم نے عملی ربط وتعلق جاری رکھنے کا حقیقت پسندانہ طرزِ فکر اپنانے پر زور دیا ہے ،ہمارے خیال میں چالیس سال کے تنازعہ کے بعد آخر کار افغانستان میں پائیدار امن کے قیام کا تاریخی موقع میسر آیا ہے،چنانچہ مل کر، تعمیری شراکت داری کے ذریعے اس عمل کو مضبوط بنایاجاسکتا ہے۔
وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے چین میں منعقدہ افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے تیسرے اجلاس میں آج شرکت کرنا میرے لئے باعث اعزاز ہے۔انہوںنے کہاکہ ہم اس اجلاس کے انتظام و اہتمام اور اس کے انعقاد کے لئے چین کی کاوشوں کو سراہتے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ گزشتہ اجلاسوں کی طرح ہم افغانستان کی صورتحال کے کثیرجہتی پہلوئوں پر پیش رفت کیلئے مفصل تبادلہ خیال اور تعمیری راستہ اپنانے کے منتظر ہیں،اس واضح احساس کے ساتھ پاکستان نے گذشتہ برس، اس فارمیٹ کا آغاز کیا تھا کہ ہمسایہ ممالک کا افغانستان کے استحکام میں کسی بھی دوسرے ملک کی نسبت، سب سے زیادہ کلیدی مفاد وابستہ ہے۔
انہوںنے کہاکہ ہمارا نکتہ نظر یہ تھا کہ ہمسایہ ممالک کے لئے بہت اہم ہے کہ وہ مل بیٹھیں، اپنے نکتہ نظر سے ایک دوسرے کو آگاہ کریں اور 15 اگست کی صورتحال کے بعد مشترکہ سوچ اپنانے کے لئے کام کریں،یہ امر تسلی بخش ہے کہ یہ اقدام نہ صرف جاری ہے بلکہ فروغ پارہا ہے۔ انہوںنے کہاکہ 15 اگست 2021 نے افغانستان میں ایک نئی حقیقت کو جنم دیا ہے۔ انہوںنے کہاکہ افغانستان میں صورتحال کی مکمل تبدیلی، عالمی برادری خاص طور پر اس کے ہمسایوں کی جانب سے خصوصی توجہ کی متقاضی ہے۔ انہوںنے کہاکہ اپنے حصے کے طور پر پاکستان، افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے اعلان کا خیرمقدم کرتا ہے۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان، گذشتہ چار دہائیوں سے افغانستان میں جاری تنازعے اور عدم استحکام سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔
انہوںنے کہاکہ ابتدائی خدشات و تحفظات کے برعکس ہم نے مشاہدہ کیا کہ کوئی خون خرابہ نہیں ہوا اور بڑی حد تک تبدیلی پرامن تھی، مقام شکر ہے کہ براہ راست تصادم ہوا اور نہ ہی بڑے پیمانے پر ہجرت کی نوبت آئی،ان حقائق کو دیکھتے ہوئے ہم نے اپنا سفارت خانہ ہمہ وقت کھولے رکھا۔انہوںنے کہاکہ ہم نے 90 ہزار سے زائد سفارتی مشنز، عالمی تنظیموں اور دیگر افراد کے انخلاء میں سہولت کاری فراہم کی۔ انہوںنے کہاکہ ہم نے عالمی برادری پر زور دیا کہ ماضی کی غلطیاں نہ دوہرائی جائیں اور ہم نے عملی ربط وتعلق جاری رکھنے کا حقیقت پسندانہ طرزِ فکر اپنانے پر زور دیا ۔ انہوںنے کہاکہ اکتوبر 2021 میں، میں بذات خود کابل گیا تاکہ مستحکم، پرامن، خودمختار اور خوش حال افغانستان کے لئے پاکستان کے عزم کا اظہار کروں۔۔
انہوںنے کہاکہ میں نے افغانستان کی عبوری حکومت کو عالمی برادری کی جانب سے وابستہ توقعات سے بھی آگاہ کیا۔ انہوںنے کہاکہ انسانی بحرانوں سے بچائو میں مدد اور افغانستان کی پائیدار معیشت کو مضبوط بنانے کی کوشش میں پاکستان نے لگاتار کئی اقدامات کئے جن میں 5 ارب روپے کا امدادی پیکج بھی شامل ہے۔ انہوںنے کہاکہ گندم کی فراہمی ، مقامی کرنسی میں تجارت کی جانے والی اشیاء کی تعداد میں اضافہ اور مختلف شعبوں میں استعدادکار میں اضافہ انہی اقدامات میں شامل ہیں،ہم نے انسانی بنیادوں پر افغانستان کو عالمی امداد کی فراہمی میں پْل کا کردار ادا کرکے سہولت بہم پہنچائی،انتہائی ابتر انسانی صورتحال اور ممکنہ معاشی انہدام کے پیش نظر، پاکستان نے دسمبر دوہزار اکیس میں ‘او۔آئی۔سی’ وزرائے خارجہ کونسل کے غیرمعمولی اجلاس کا انعقاد کیا جس کے نتیجے میں متعدد ٹھوس فیصلے ہوئے،جن میں ہیومینیٹیرین ٹرسٹ فنڈ اور نمائندہ خصوصی کا تقرر شامل ہے ۔ انہوںنے کہاکہ خلاصہ یہ ہے کہ ہماری تمام تر کوششوں کامقصد، افغانستان میں استحکام کا فروغ اور انسانی مسائل اور معاشی مضر اثرات سے بچائومیں کمی لانا تھا ،آگے بڑھتے ہوئے ان عوامل کا وسیع جائزہ لینا ضروری ہے۔۔
انہوںنے کہاکہ افغانستان میں اگرچہ جنگ ختم ہوچکی ہے، لاکھوں افغان بچے بھوک اور فاقہ کشی کا سامنا کررہے ہیں، افغان ہسپتالوں کو ادویات، آلات اور اہلکاروں کی شدید کمی درپیش ہے،اس نازک صورتحال کو دیکھتے ہوئے ہم زور دیتے ہیں کہ سیاسی ترجیحات پر انسانی ناگزیر صورتحال کو فوقیت دی جائے،اس وقت بنیادی ضرورت انسانیت اور چار کروڑ افغان باشندوں پر توجہ مرکوز کرنے کی ہے۔ انہوںنے کہاکہ میں یہاں اس بات کو دہرانا چاہوں گا کہ غیرملکی بینک میں افغان منجمد اثاثے افغان قوم کی ملکیت ہیں اور ان کا استعمال بھی افغانستان کا خودمختار فیصلہ ہونا چاہئے،ہم اس کے منجمند اثاثوں تک رسائی میں افغانستان کی مدد جاری رکھیں گے تاکہ یہ قیمتی وسائل افغانوں کی فلاح وبہبود کے لئے بروئے کار آسکیں۔
انہوںنے کہاکہ ہمارے خیال میں چالیس سال کے تنازعہ کے بعد آخر کار افغانستان میں پائیدار امن کے قیام کا تاریخی موقع میسر آیا ہے،چنانچہ مل کر، تعمیری شراکت داری کے ذریعے اس عمل کو مضبوط بنایاجاسکتا ہے۔ انہوںنے کہاکہ تبدیلی کے اس مرحلے پر عالمی برادری کی عبوری حکومت سے اجتماعیت، لڑکیوں کی تعلیم، انسانی حقوق کے احترام اور انسداد دہشت گردی کے خلاف موثر کارروائی کے حوالے سے توقعات بجا طور پر وابستہ ہیں۔ انہوںنے کہاکہ کابینہ میں کیسے شامل ہونا چاہیے اس کا فیصلہ افغانستان پر چھوڑ دینا مناسب ہوگا تاہم افغان حکام کو ایسے طریقوں پر غور کرنا چاہئے جس سے حکومتی ڈھانچے میں اجتماعیت اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کی نمائندگی یقینی ہو۔ انہوںنے کہاکہ یہ امر قابل فہم ہے کہ افغانستان ایک طویل جنگ کے سائے سے باہر آرہا ہے،اس کے باجود عملی اقدامات عبوری حکومت کی ساکھ کو مضبوط کریں گے جن میں خواتین کے لئے نوکریوں کو کھولنا شامل ہے۔
انہوںنے کہاکہ ہم افغان اتھارٹیز پر زور دیتے ہیں کہ وہ لڑکیوں کو تعلیم تک رسائی کی اجازت اور انسانی حقوق کے فروغ جیسے مثبت اقدامات جاری رکھیں تاکہ عالمی ربط وتعلق بڑھانے اور درکار مالی وسائل تک رسائی میں مدد مل سکے۔ انہوںنے کہاکہ ہمیں علم ہے کہ انسداد دہشت گردی کی موثر کوششوں کے لئے طویل المدتی پائیدار منصوبہ بندی اور اشتراک عمل درکار ہے۔ انہوںنے کہاکہ انسداد دہشت گردی میں پیش رفت، عبوری حکومت کی صلاحیت اور عالمی برادری کی ان کوششوں میں حمایت میں آمادگی پر منحصر ہے،پاکستان اس ضمن میں افغانستان کی مدد کے لئے آمادہ ہے۔ انہوںنے کہاکہ یہ واضح ہے کہ انسانی مدد کے فوری سوال کے بعد ہمیں طویل المدتی معاشی پائیداری اور ترقی پر سوچنے کی ضرورت ہے۔
انہوںنے کہاکہ جب تک تجارت وصنعت کا پہیہ رواں ہونے کی اجازت نہیں ہوگی عام افغانیوں کی زندگی میں بہتری نہیں آئے گی۔ انہوںنے کہاکہ خطے کو جوڑنے کا خیال انفراسٹرکچر کی طویل المدتی ترقی کے بغیر شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔انہوںنے کہاکہ طویل بنیادوں پر قابل عمل اور خوش حال افغانستان وہی ہے جو پورے خطے کے لئے تجارت اور توانائی کی راہداری کے طور پر بروئے کار آئے لہٰذا خطے کو جوڑنے اور افغانستان میں توانائی کے منصوبہ جات کا فروغ ہمارے دیرینہ مقاصد میں شامل ہے اس ضمن میں ہم چین کی جانب سے، سیاسی سفارت کاری، معاشی تعاون، سلامتی واستحکام پر ورکنگ گروپس کی تشکیل کی تجویز کی حمایت کرتے ہیں۔
انہوںنے کہاکہ ہم اس فارمیٹ کے تحت انسداد دہشت گردی میں تعاون بڑھانے کی تجویز زیرغور لانے کے بھی حامی ہیں جو ہمارے مشترکہ مفاد میں شامل ہے۔ انہوںنے کہاکہ ہمیں عطیات پر انحصار کرنے والی قوم تخلیق نہیں کرنی چاہئے،ہمارا مقصد ہونا چاہئے کہ افغانستان خودانحصار اور معاشی صلاحیت رکھنے والا ملک بنے۔ انہوںنے کہاکہ چھے ماہ سے زیادہ ہوگئے ہیں جب ہم نے افغانستان میں سیاسی تبدیلی ہوتے دیکھی، اگرچہ عبوری حکومت نے کئی شعبوں میں پیش رفت کی ہے، ہمیں امید ہے یہ سلسلہ جاری وساری رہے گا،ہمیں یہ بھی امید ہے کہ دنیا اس معاملے میں اپنا حصہ ڈالنے کا سلسلہ جاری رکھے گی۔ انہوںنے کہاکہ عبوری افغان حکومت کو ‘تسلیم’ کرنے کے زیرالتوا سوال کو زیادہ دیر تک یوں ہی بغیر حل کے نہیں چھوڑا جاسکتا۔
انہوںنے کہاکہ یہ امر ناگزیر ہے کہ عالمی برادری خاص طور پر افغانستان کے ہمسایہ ممالک یہ سوچیں کہ مرحلہ وار انداز میں تسلیم کرنے کے معاملے پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے آگے کیسے بڑھا جائے۔ وزیرخارجہ نے کہاکہ افغان عبوری حکومت کا نوزائدہ ڈھانچہ، گورننس اور انسداد دہشت گردی کی صلاحیتوں کے حوالے سے ہماری مدد کا متقاضی ہے۔
انہوںنے کہاکہ یہ ہمارے اجتماعی مفاد میں ہے کہ افغان بھائیوں اور بہنوں کی مدد کی جائے تاکہ وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکیں۔ انہوںنے کہاکہ اپنے حصے کے طور پر پاکستان نے استحکام، امن، ترقی اور خوش حالی کی کوششوں میں ہمیشہ افغانستان کو مدد فراہم کی ہے اور کرتا رہے گا۔