سپریم کورٹ

اوورسیز ووٹنگ کیس،پہلے جس قانون کو آئینی قرار دیا، اب غیر آئینی کیسے قرار دیں؟ جسٹس منیب اختر

اسلام آباد (گلف آن لائن)سپریم کورٹ آف پاکستان کے جسٹس منیب اختر نے سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران سوال اٹھایا ہے کہ عدالت عظمیٰ نے پہلے جس قانون کو آئینی قرار دیا اب اسے غیرآئینی کیسے قرار دے؟۔ جمعہ کو سپریم کورٹ میں سمندرپار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے کیس کی سماعت جسٹس اعجازالاحسن کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سابق وزیراعظم، پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان اور سابق وزیر داخلہ، سربراہ عوامی مسلم لیگ شیخ رشید احمد کی درخواست پر سماعت کی۔

سماعت کے دوران الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے رپورٹ تیار کرلی ہے تاہم تکنیکی غلطی کی وجہ سے جمع نہیں ہوسکی، نادرا نے اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ کے حق کے استعمال کے حوالے رپوٹ جمع کرادی۔درخواست گزار کے وکیل نے کہاکہ نادرا کے مطابق الیکشن کمیشن معاہدہ کرے تو ایک سال میں آئی ووٹنگ کا سسٹم بنا سکتے ہیں، وکیل عارف چوہدری نے کہا کہ ماضی میں بھی نادرا نے ایک سال کا وقت مانگا تھا عدالت کے کہنے پر چھ ماہ میں سسٹم بنا، سال 2017 میں ہونے والے پائلٹ پراجیکٹ پر کوئی اعتراض سامنے نہیں آیا، الیکشن کمیشن نے اب تک دوبارہ کوئی پائلٹ پراجیکٹ نہیں کیا۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارلیمان نے 2017 میں الیکشن ایکٹ بنایا، سمندر پار پاکستانیوں کے حق سے متعلق الیکشن ایکٹ کی سیکشن 94 واضح ہے، سپریم کورٹ نے 2018 میں سیکشن 94 کو آئین کے مطابق قرار دیا تھا، سال 2021 میں قانون کو مزید بہتر کیا گیا 2022 میں پارلیمنٹ واپس پرانی سطح پر لے آئی، سپریم کورٹ نے پہلے جس قانون کو آئینی قرار دیا اب غیرآئینی کیسے قرار دے؟جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ فریقین کے جواب آ جائیں تو عملدر آمد کا جائزہ بھی لیں گے، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ تارکین وطن کے ووٹ کیلئے پارلیمنٹ نے 2017 میں قانون بنایا، سپریم کورٹ نے مذکورہ قانون کا جائزہ لیکر اسے درست قرار دیدیا، پھر پی ٹی آئی کی حکومت نے 2021 میں مذکورہ قانون میں ترمیم کرلی۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ 2022 میں پارلیمنٹ نے ترمیم واپس لیکر قانون کو اصل شکل میں بحال کردیا، جسٹس منیب اختر نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا پارلیمنٹ قانون کو اصل شکل میں بحال نہیں کرسکتی۔عدالت عظمیٰ نے حکم دیا کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے رپورٹ جمع ہونے کے بعد معاملے پر سماعت کی جائے گی، سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ الیکشن کمیشن تارکین وطن کے ووٹ کیلئے اٹھانے گئے اقدامات کا جامع تحریری جواب جمع کرے۔
سپریم کورٹ نے جواب طلب کرتے ہوئے کہا کہ بتایا جائے کہ اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ کے حق کے قانون میں ترمیم آئینی طور پر کیسے درست نہیں؟ عدالت عظمیٰ نے عمران خان اور شیخ رشید کو جواب جمع کرانے کا وقت دیتے ہوئے الیکشن کمیشن کی استدعا پر سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔واضح رہے کہ گزشتہ سال شیخ رشید احمد نے اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی تھی جبکہ سابق وزیر اعظم عمران خان نے اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ سے متعلق ترمیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔شیخ رشید کی جانب سے دائر درخواست میں کہا گیا تھا کہ پوری دنیا میں 90 لاکھ پاکستانی ہیں، سپریم کورٹ حکومت کو اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دلوانے کے لیے اقدامات کا حکم دے اور الیکشن ایکٹ کی شق 94 میں کی گئی ترمیم کالعدم قرار دے۔جولائی 2022 میں عمران خان نے اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ سے متعلق ترمیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے وفاق، الیکشن کمیشن پاکستان اور نادرا کو فریق بنایا تھا۔عمران خان نے درخواست میں عدالت عظمیٰ سے اپیل کی تھی کہ وہ الیکشن ایکٹ میں وفاقی حکومت کی جانب سے کی گئی ترامیم کو غیر آئینی قرار دے، درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ سپریم کورٹ، الیکشن کمیشن اور دیگر حکام کو اوورسیز پاکستانیوں کو دی گئی ووٹ کی سہولت فراہمی کا حکم دے۔
خیال رہے کہ حکومت نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں الیکشن ایکٹ ترمیمی بل 2022 اور نیب آرڈیننس 1999 ترمیمی بل کثرت رائے سے منظور کرلیے تھے۔پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں الیکشن ایکٹ ترمیمی بل کی شق وار منظوری دی گئی جس میں ای وی ایم اور اوورسیز ووٹنگ کے لیے الیکشن کمیشن کو پائلٹ پروجیکٹ کرنے کا کہا گیا تھا۔بل وفاقی وزیر پارلیمانی امور مرتضیٰ جاوید عباسی نے پیش کیا تھا، بل کے تحت انتخابات ایکٹ 2017 میں مزید ترامیم کی گئی تھیں۔
٭٭٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں