جان کربی

روس ، شمالی کوریا کے ہتھیاروں کے معاہدے کے شواہد موجود ہیں، امریکا

واشنگٹن (گلف آن لائن )وائٹ ہائو س نے دعوی کیا ہے کہ امریکا کے پاس اس بات کے نئے شواہد ہیں کہ روس ایک بار پھر یوکرین میں جنگ چھیڑنے کی خاطر ہتھیاروں کے لیے شمالی کوریا کی طرف دیکھ رہا ہے۔ اس بار اس معاہدے کے تحت ہتھیاروں کے بدلے میں پیونگ یانگ کو خوراک اور ضروری سامان فراہم کیا جائے گا۔

میڈیارپورٹس کے مطابق اس کے علاوہ وائٹ ہائوس کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے بتایا کہ اس مجوزہ معاہدے کے ایک حصے کے طور پر روس پیونگ یانگ سے بیس سے زائد اقسام کے ہتھیار اور گولہ بارود حاصل کرے گا۔ ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ روس شمالی کوریا میں ایک وفد بھیجنے کی کوشش کر رہا ہے اور یہ کہ روس گولہ بارود کے بدلے شمالی کوریا کو خوراک کی پیشکش کر رہا ہے۔اسی تناظر میں امریکا نے جمعرات کو ایک شخص کی شناخت کی جس کے بارے میں اس نے دعوی کیا کہ وہ یوکرین کے خلاف جنگ کی حمایت کے لیے شمالی کوریا سے ہتھیار اور گولہ بارود خریدنے کی روس کی کوششوں میں ثالث کے طور پر سرگرم ہے۔

امریکی محکمہ خزانہ نے کہا کہ بریٹیسلاوا کا 56 سالہ اشوٹ میکریچیوف 2022 کے آخر اور 2023 کے اوائل کے درمیان روس کو “دو درجن سے زائد” قسم کے ہتھیاروں اور گولہ بارود کی ترسیل کے لیے شمالی کوریا کے ساتھ خریدو فروخت اور بارٹر سودے کرنے میں ملوث تھا۔وزارت خزانہ نے مزید کہا کہ پیانگ یانگ واپسی میں نقد رقم، تجارتی طیارے، سامان اور خام مال وصول کر رہا ہے۔محکمہ خزانہ کے مطابق میکریچیوف نے سودے مکمل کرنے کے لیے دونوں اطراف کے حکام کے ساتھ کام کیا، لیکن اس نے یہ نہیں بتایا کہ آیا ان میں سے کوئی ڈیل مکمل ہو چکی ہے یا نہیں۔ اس میں موجود ہتھیاروں کی تفصیلات بھی سامنے نہیں آئیں۔

گذشتہ ستمبر میں وائٹ ہاس نے اطلاع دی تھی کہ روس شمالی کوریا سے توپ خانے کے گولے اور میزائل خرید رہا ہے، جس کی پیانگ یانگ نے تردید کی تھی۔اس کے بعد وائٹ ہاس کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے نومبر میں کہا تھا کہ شمالی کوریا ہتھیاروں کی ترسیل روس کو کر رہا ہے اور ہتھیاروں کی کھیپ کو مشرق وسطی یا شمالی افریقہ کے لیے ظاہر کرتا ہے۔کربی نے مزید کہا کہ ہفتوں بعد شمالی کوریا نے روس کے نیم خود مختار ویگنر فوجی ملیشیا کو ہتھیاروں کی ابتدائی کھیپ مکمل کر لی ہے جو یوکرین میں اگلے مورچوں پر لڑ رہا ہے۔ تاہم اپنی طرف سے، پیانگ یانگ نے ایک بار پھر امریکی الزامات کی تردید کی تھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں