میاں زاہدحسین

سیاست رواداری کا نام ہے مگر کوئی افہام و تفہیم کے لیے تیار نہیں ہے،میاں زاہد حسین

کراچی( گلف آن لائن)نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولزفورم وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدراورسابق صوبائی وزیرمیاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ سیاست رواداری اور برداشت کا نام ہیے

مگراس وقت کوئی سیاستدان یا اہم ادارہ ذرا سی لچک دکھانے پر آمادہ نہیں ہے سیاست کو زندگی اور موت کی جنگ بنا دیا گیا ہیجس سے ملکی معیشت تباہ ہو رہی ہے اور جی ڈی پی نصف فیصد پر آگئی ہے۔

خود پسند سیاستدانوں کو ملکی معیشت کے زوال سے کوئی غرض نہیں کیونکہ بے روزگاری اور مہنگائی کا سارا بوجھ عوام اٹھا رہی ہے جن کا جینا محال ہو چکا ہے۔ بعض افراد کو اپنے معمولی مفادات کے لئے ملک اوراسکی بائیس کروڑعوام کا مستقبل داؤ پر لگانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی ہے۔ میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ملکی معیشت مسلسل کمزور ہو رہی ہے اوراگرہوش کے ناخن نہ لئے گئے تو اسکی تباہی کے بعد سب ہاتھ ملتے رہ جائیں گے کیونکہ یہ نقصان انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی ہو گا۔

موجودہ کھیل میں شامل افراد اوراداروں کومعلوم ہونا چائیے کہ ملک کو بلا تاخیر معاشی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ناکام سرکاری اداروں کی نجکاری، بجلی و گیس کے نقصانات کا خاتمہ، امپورٹ سبسٹیٹوشن اور زرعی اصلاحات وقت کی اہم اور فوری ضرورت ہیاور اگر یہ نہ کیا گیا تو ملک کو دیوالیہ ہونے سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔ عدلیہ کو سیاسی تنازعات میں ملوث کرنے سے عدلیہ کی طاقت اورعزت بھی خطرے میں پڑ چکی ہے۔

میاں زاہد حسین نے کہا کہ عمران خان کو چاہیے کہ وہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کریں اور تاریخ میں اپنا نام ایک صلح پسند اور مدبر لیڈر کے طور پر درج کروائیں، ملک میں سیاسی رسا کشی کو ختم کریں، چارٹر آف اکانومی اور زرعی اصلاحات میں اپنا کردار ادا کریں تو ان کا نام تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا اور عوام کی مشکلات میں بھی کمی آئے گی۔

میاں زاہد حسین نے مزید کہا کہ اداروں کو تصادم کی راہ پر جانے سے گریز کرنا چاہیے اور تصادم کی کوششوں کا راستہ روکنا ضروری ہے۔ جو لوگ عوام کے مسائل سے لاتعلق ہوکرانھیں مسلسل تقسیم کر رہے ہیں، معاشرے کو تباہ کررہے ہیں، اخلاقیات کا جنازہ نکال رہے ہیں اورملکی تاریخ کا سیاہ ترین باب لکھنے میں مصروف ہیں انھیں قوم کبھی معاف نہیں کرے گی۔

میاں زاہد حسین نے مزید کہا کہ پاکستان میں سیاسی قلابازیوں کی وجہ سے کبھی بھی اہم معاشی پالیسیوں میں تسلسل نہیں رہا ہے۔ شرح سود، زرمبادلہ، افراط زر اور قوانین میں اتنی تیزی سے ردوبدل کیا جاتا ہے کہ سرمایہ کار چکرا کررہ جاتے ہیں اوراہم فیصلے کرنے کے قابل نہیں رہتے۔

بہت سے انوسٹر ایسے حالات سے مایوس ہو کر ملک ہی چھوڑ جاتے ہیں مگر اس نقصان سے کسی کے کان پرجوں تک نہیں رینگتی۔ لارج سکیل مینوفیکچرنگ میں 11 فیصد کمی اور مختلف صنعتوں کی بندش اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ملکی حالات کو اس نہج پرپہنچا دیا گیا ہے کہ صرف وہی لوگ سرمایہ کاری کے لئے تیار ہوتے ہیں جو زیادہ سے زیادہ تین سال میں اپنا سرمایہ منافع سمیت نکال سکیں کیونکہ انھیں کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ کب بنیادی پالیسوں میں بنیادی تبدیلی کر دی جائے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں