اسپیکر

توہین پارلیمنٹ بل متعارف، 6 ماہ قید اور جرمانے کی سزا تجویز،اسپیکر نے بل قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کو مزید غور کیلئے بھیج دیا

اسلام آباد (گلف آن لائن) قومی اسمبلی میں توہین پارلیمنٹ سے متعلق بل کی متعارف کروادیا گیا ،اسپیکر نے بل مزید غور کیلئے قائمہ کمیٹی برائے قانو ن وانصاف کو بھیج دیا ، بل میں ایوان کی توہین پر چھ ماہ قید اور ایک کروڑ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکیں گی،

پارلیمنٹ کی توہین پر کسی بھی حکومتی یا ریاستی عہدیدار کو طلب کیا جا سکے گا اور 24 رکنی پارلیمانی کنٹمپٹ کمیٹی توہین پارلیمنٹ کیسز کی تحقیقات کرے گی۔منگل کو قومی اسمبلی میں ہونے والے اجلاس میں بل کی تحریک رانا محمد قاسم نون نے پیش کی۔رانا محمد قاسم نون نے کہا کہ پارلیمان کو اداروں کی ماں کہا جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے کمزور ماں کمزور اولاد کا باعث بنتی ہے، اگر جری ماں ہو گی تو جری اولاد بھی ہو گی۔

انہوںنے کہاکہ جتنی تضحیک، جتنی بے توقیری اس ایوان کی ہوئی ہے ، اس کی آج تک مثال نہیں ملتی، جب ہم اسے اداروں کی ماں کہتے ہیں تو ہمیں اداروں کی روایات کا بھی خیال رکھتا ہے، پارلیمان کی بالادستی ہے، کہنے کی حد تک تو ہے لیکن عملی طور پر نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے آئین کے تحفظ، آئین اور پارلیمنٹ کے دفاع کا حلف اٹھایا ہے لیکن ہم نے یہ بھی دیکھا کہ پہلی حکومت میں اس ایوان میں لعنتیں برسائی گئیں، گالیاں دی گئیں، اتنی بے توقیری پاکستان کی سیاسی اور پارلیمانی تاریخ میں آج تک نہیں دیکھی گئی۔

رانا محمد قاسم نون نے کہا کہ جس کا جو دل چاہتا ہے وہ پارلیمان کو رگید دیتا ہے، ہمارا میڈیا ٹرائل ہوتا ہے، بدنیتی پر مبنی مہم چلائی جاتی ہیں، اس تمام صورتحال دیکھتے ہوئے ہم کہتے ہیں کہ توہین پارلیمنٹ کا ایکٹ پاس ہونا چاہیے کیونکہ اس پارلیمان کی عزت ہو گی تو ہی آئینی اداروں کی عزت ہو گی۔انہوں نے کہا کہ اس کے بعد اس ایوان کی عزت سے کمیٹیوں کو فعال ہونا ہو گا، جب تک کمیٹیاں فعال نہیں ہوں گی، اس وقت تک ایوان موثر انداز میں نہیں چل سکتا، جس طرح دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں توہین پارلیمنٹ کا واضح سزا و جزا کا طریقہ کار موجود ہے اسی طرح یہاں بھی رائج کیا جائے۔

اس موقع پر اسپیکر نے وزیر برائے پارلیمانی امور شہادت اعوان سے پوچھا کہ کیا وہ اس بل کی مخالفت کریں گے تو انہوں نے کہا کہ قاسم نون نے بہت اچھا بل متعارف کرایا ہے لیکن بہتر یہ ہو گا کہ اسے ایک دن کیلئے کمیٹی میں بھیجیں اس پر ان کی بھی رائے آ جائے اور پھر اس کے بعد پرسوں اس کو قانون سازی کے لیے پیش کریں تاہم قائد حزب اختلاف نے بل کو کمیٹی میں بھیجنے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ بل ہماری عزت کا مسئلہ ہے، یہ اس ایوان کی عزت کا مسئلہ ہے اور اس کو کس وجہ سے کمیٹی میں بھیجیں، جب ہم پر حملہ ہونا ہوتا ہے تو ایک جج تلوار پکڑ کر سب کے سر قلم کر دیتا ہے اور جب ہماری باری آتی ہے اور ہماری عزت کا مسئلہ ہوتا ہے تو ہم خود ہی کمیٹیوں کو تلاش کرنا شروع کر دیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کسی کمیٹی کی ضرورت نہیں، یہ ہمارے پورے ایوان کی عزت کا مسئلہ ہے اس لیے میں بطور قائد حزب اختلاف قاسم نون صاحب کو مکمل سپورٹ کرتا ہوں، اس لیے مہربانی کریں اور اس بل کے لیے کسی کمیٹی کی ضرورت نہیں۔

وزیر پارلیمانی امور مرتضیٰ جاوید عباسی نے کہا کہ اس معاملے پر تمام روایات کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے، اس معاملے کو کمیٹی کو بھجوایا جائے اور اس کے بعد پھر اسے اگلی نجی کارروائی کے دن پیش کرکے منظور کرلیا جائے۔مسلم لیگ(ن) کے رہنما اور وفاقی وزیر میاں جاوید لطیف نے بل کی بل کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ قاسم نون نے جو بات کی ہے وہ پورے ایوان کی بات ہے جبکہ راجا ریاض نے جو بات کی اس پر بھی پورا ایوان متفق ہے۔

انہوں نے کہا کہ دو تین ہفتوں میں ایسی ایسی سازشیں بے نقاب ہورہی ہیں، ایسے انکشافات ہورہے ہیں، سمجھتا تھا کہ اداروں کے اندر ایک طوفان برپا ہوگا کہ ہمارے اداروں کے اندر یہ الزامات کیسے لگے؟میں سمجھتا تھا کہ وہ سخت احتساب کے لیے کوئی راہ ڈھونڈ رہے ہونگے مگر ڈھٹائی سے ٹکٹیں بھی تقسیم کررہے ہیں اور سہولت کاری کا کردار بھی ادا کررہے ہیں۔انہوںنے کہاکہ اس جماعت کے جنرل سیکرٹری کہہ رہے تھے کہ وقت آ گیا ہے کہ جو الزامات عمران خان آرمی چیف یا اداروں پر لگا رہے ہیں، بہتر ہو کہ ایک دوسرے کی غلط فہمیاں دور کردیں، اگر ایسا ہے تو پھر کچے کے ڈاکو کو بھی آئی جی کے ساتھ بیٹھ جانا چاہیے۔

میاں جاوید لطیف نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ کب تک ملک کا نقصان ہوتا رہے گا اور ہم مٹی ڈالتے رہیں گے، بھٹو کو پھانسی ہوگئی تو کہا گیا مٹی پاؤ آگے چلیں، نواز شریف تاحیات نااہل ہوگیا اور کہا گیا مٹی پاؤ آگے چلیں، اس ہاؤس سے اداروں کو روشنی ملتی ہے مگر پھر اس ہاؤس کی عزت و تقدس کیوں پامال ہوتا ہے، کبھی ہمیں بندوق والے اور کبھی ہتھوڑے والے پکڑ لیتے ہیں۔انہوںنے کہاکہ ایوان نے فیصلہ کیا ہے، رائے دی ہے لہٰذا اس معاملے پر اسٹینڈ لیا جائے، اگر کسٹوڈین اس بات کا اسٹینڈ نہیں لے گا تو کون لے گا ؟ کیسے تقدس بحال ہوگا۔

اس موقع پر وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ تحقیر پارلیمنٹ سے متعلق بہت پہلے قانون سازی کرنی چاہیے تھی، قانون کو پاس کرنے یا مسترد کرنے کا اختیار اس ایوان کے پاس ہے اور اگر ادارے ایک دوسرے کے اختیار میں مداخلت کریں گے تو گڑبڑ ہو گی۔انہوںنے کہاکہ یہ اتنا اچھا قانون بننے جارہا ہے، اس پر غور کرنا چاہیے، اس کو کمیٹی میں بھیجیں اور اس کو مزید خوبصورت شکل دیں گے، قائمہ کمیٹی میں چیزیں مزید بہتر ہوتی ہیں۔

رکن قومی اسمبلی اسلم بھوتانی نے کہاکہ ہم پارلیمان کی عزت بڑھانے جارہے ہیں،ہماری پارلیمان کو یہ عزت کو کافی لوگوں کو کھٹگے گی،قائمہ کمیٹی میں بل پر بحث ہوجائے تو اتفاق رائے ہوجائے گا ۔ اسلم بھوتانی نے کہاکہ ایک دو روز میں اس پر قائمہ کمیٹی میں بحث کروا لی جائے تاکہ کوئی اعتراض رہ نہ جائے۔ انہوںنے کہاکہ رانا قاسم نون نے تحقیر پارلیمنٹ کا بل پیش کرکے بڑا اچھا کام کیا ہے ،یہ پارلیمنٹ اور ہماری عزت کا معاملہ ہے ،ہماری عزت لوگوں کو کھٹکتی ہے ۔

ہاشم نوتیزئی نے کہاکہ ہم کسی کو موقع کیوں دیں کمیٹی کل پرسوں بیٹھ جائے اور فیصلہ کرے۔ہاشم نوتیزئی نے ہاکہ اس کو کمیٹی میں بھیجا جائے اور اس پر غور کیا جائے ،رانا قاسم کی نے یہ بل لاکر بڑا اچھا کام کیا ہے۔ریاض محمود مزاری نے کہاکہ اس پارلیمنٹ کو ہم نے خود بے عزت کیا ہے ،ایک دوسرے کو گالیاں دی ہیں اور چور چور کہا ہے ،جن کے خلاف بل لارہے ہیں ان کو کچھ نہیں بگاڑ سکتے ،اس بل کے حوالے سے جلد بازی نہیں کرنی چاہیے ۔

انہوںنے کہاکہ یہاں پر بات ہوتی ہے وزراء فون پہ بات کررہے ہوتے ہیں ۔ انہوںنے کہاکہ بل پاس کرنے سے کیا پارلیمنٹ کی عزت میں اضافہ ہوگا ؟ بالکل بھی نہیں ہوگا ۔ انہوںنے کہاکہ جب تک خود ایک دوسرے کی عزت نہیں کرینگے ،پارلیمنٹ کی عزت میں اضافہ نہیں ہوگا ۔انہوںنے کہاکہ جناب سپیکر آپ کے پاس اور چیئرمین سینیٹ کے پاس اختیار ہونا چاہیے ،جو بدتمیزی کرے ان کو ڈی سیٹ کریں۔

خالد مگسی نے کہاکہ اس بل پر غور کریں اور کمیٹی میں بھیجیں ،جب پارلیمنٹ کی عزت کا معاملہ ہو تو بالکل بھی کمپرومائز نہ کریں۔شیخ روحیل اصغر نے کہاکہ قاسم نون صاحب نے ایک تحریک پیش کی اور اب ایوان میں ایک سوال رکھ دیا ہے ،اب وزرا صاحبان نے اپنی نوکری پکی کرنے کے لئے کہہ رہے ہیں کہ کمیٹی کو بھیج دیں ۔ انہوںنے کہاکہ اس وقت پورا ایوان ان وزرا کے علاوہ کتنے لوگ کہتے ہیں معاملہ کمیٹی کو بھیج دیں ،عجیب تماشا ہے کہ اہم معاملہ ہے تو کیوں اس کو کمیٹی کو بھیج رہے ہیں،کیا کوئی قانونی قدغن ہے ؟ اس حوالے سے بتایا جائے۔

اجلاس کے دور ان مولاناعبد الاکبر چترالی نے کہاکہ قوانین پاس ہوتے رہیں تاہم کبھی ایک دروازے پہ جائیں گے کبھی دوسرے پہ ،الیکشن کا معاملہ سپریم کورٹ میں نہیں جانا چاہیے تھا ،یہ سیاستدانوں کو طے کرنا چاہیے تھا۔بعدازاں توپین پارلیمنٹ بل2023 ایوان میں متعارف کرا دیا گیا۔اسپیکر نے بل پیش کرنے کی تحریک منظوری کیلئے ایوان میں پیش کی اور ایوان نے بل پیش کرنے کی اجازت دے دی۔

توہین پارلیمنٹ بل2023 رانا قاسم نون نے نجی بل کی صورت میں پیش کیا۔ اسپیکر نے بل قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کو مزید غور کے لیے بھیج دیا اور کمیٹی 7 دن کے اندر اپنی رپورٹ ایوان میں پیش کرے۔یاد رہے کہ اس بل کو چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے قواعد و ضوابط اور استحقاق رانا قاسم نون نے تیار کیا ہے۔مجوزہ بل کے تحت توہین پارلیمنٹ پر مختلف سزائیں تجویز کی گئی ہیں اور ایوان کی توہین پر چھ ماہ قید اور ایک کروڑ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکیں گی۔

بل میں تجویز دی گئی ہے کہ پارلیمنٹ کی توہین پر کسی بھی حکومتی یا ریاستی عہدیدار کو طلب کیا جا سکے گا اور 24 رکنی پارلیمانی کنٹمپٹ کمیٹی توہین پارلیمنٹ کیسز کی تحقیقات کرے گی۔اس حوالے سے تجویز دی گئی ہے کہ کمیٹی میں اپوزیشن اور حکومت کے 50، 50 فیصد اراکین کو شامل کیا جائے گا اور کنٹمپٹ کمیٹی شکایات کی رپورٹ پر اسپیکر یا چیئرمین سینیٹ کو سزا تجویز کرے گی۔اس حوالے سے کہا گیا کہ اسپیکر یا چیئرمین سینیٹ متعلقہ فرد پر سزا کے تعین کا اعلان کرسکیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں