لاہور ہائیکورٹ

سیاسی انتقام ملک میں پرانا وطیرہ، کالر سے پکڑ کر کھینچیں گے تو عوام میں انتشار آئے گا ‘لاہور ہائیکورٹ

لاہور (گلف آن لائن)لاہور ہائیکورٹ نے کہا ہے کہ سیاسی انتقام ہمارے ملک میں پرانا وتیرہ ہے ، ریاست اپنے رویے پر بھی نظر ثانی کرے، کالر سے پکڑ کر کھینچنے پر انتشار تو پھیلے گا،ماضی میں بھی گرفتاریاں ہوتی رہی ہیں کیا یہ کوئی پہلی گرفتاری تھی جس کے بعد اتنا ہنگامہ ہوا ،کیا سیاسی رہنمائوں کی ذمہ داری نہیں وہ کارکنوں کو روکیں ،محترمہ بینظیر بھٹو پر قاتلانہ حملہ ہوا کارکن زخمی ہوئے اتنا ریکشن نہیں ہوا ،ماضی میں کیا کیا ہوتا رہا ،اس پر بھی رپورٹ آنی چاہیے ۔

ہائیکورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے سابق وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کی مقدمات کی تفصیلات فراہمی کی درخواست پر سماعت کی۔عدالت نے عثمان بزادر پر درج مقدمے کا ریکارڈ آئندہ سماعت پر پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ درج مقدمے میں قانونی طریقے کار کو اپنایا گیا یا نہیں۔ وکیل بیرسٹر مومن ملک ایڈووکیٹ نے کہا کہ ضمانت کے بعد عثمان بزادر اینٹی کرپشن میں شامل تفتیش ہوچکے ہیں ۔ جسٹس علی باقر نجفی نے کہا کہ کیا پنجاب حکومت نے مقدمات کی تفصیلات فراہم کر دی تھی ۔

وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ عثمان بزدار پر ایک مقدمہ درج ہے ،عثمان بزدار کے خلاف 13انکوئریز زیر سماعت ہیں ۔جسٹس مس عالیہ نیلم نے کہا کہ درخواست گزار نے درج مقدمے میں حفاظتی ضمانت حاصل کی ،کیا آپ نے عبوری ضمانت کے لیے متعلقہ عدالت سے رجوع کیا ۔ وکیل عثمان بزدار نے کہا کہ ہم نے عبوری ضمانت متعلقہ عدالت سے 22مئی تک کروائی ہے ۔ جسٹس مس عالیہ نیلم نے کہا کہ آپ کی موجودہ درخواست میں استدعا بھی پوری ہوچکی ہے تمام تفصیلات آچکی ہیں ۔ معزز جسٹس نے استفسار کیا کہ عثمان بزدار کہاں ہیں انہیں پیش ہونا چاہیے تھا ۔ سرکاری وکیل نے بھی کہا کہ عثمان بزدار کو عدالت کے روبرو پیش ضرور ہونا چاہیے تھا ۔

دوران سماعت جسٹس طارق سلیم شیخ نے ریمارکس دیئے کہ گزشتہ ایک سال سے جو ملک میں ہورہا ہے اس پر ہم آنکھیں بند نہیں کرسکتے ،دو گھنٹے پہلے مقدمہ درج ہوتا ہے اس کے بعد گرفتاری کر لی جاتی ہے ۔ انہوں نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا کہ کیا سیاسی رہنمائوں کی ذمہ داری نہیں ہے وہ کارکنوں کو روکیں ؟۔ جسٹس علی باقر نجفی نے ریمارکس دیئے کہ ماضی میں بھی گرفتاریاں ہوتی رہی ہیں کیا یہ کوئی پہلی گرفتاری تھی جس کے بعد اتنا ہنگامہ ہوا ،ماضی والی گرفتاریاں درست تھی یا غلط وہ بعد میں ثابت ہوئی یا نہیں ۔جسٹس مس عالیہ نیلم نے کہا کہ محترمہ بینظیر بھٹو پر قاتلانہ حملہ ہوا کارکن زخمی ہوئے اتنا ریکشن نہیں ہوا ،

ہمیں دس سال ماضی میں واپس جانا پڑے گا ماضی میں کیا کیا ہوتا رہا ،اس پر بھی رپورٹ آنی چاہیے کہ سیاسی رہنمائوں کا کیا کردار ہوتا ہے ۔جسٹس انوار الحق پنوں نے کہا کہ کیا ایسے گرفتار کیا جاسکتا ہے جس طرح آپ نے گرفتار کیا ،شیشے توڑے گئے اور شیشے توڑنا غلط کام تھا ،عام آدمی کسی کا دروازے توڑے تو فوری دفعہ 427لگتی ہے ،آپ لوگوں کے گھروں میں چھاپے مار رہے ہیں تو توڑ پھوڑ کررہے ہیں اس پر قانونی دفعہ کیوں نہیں لگتی ،آپ نے سپریم کورٹ کے ساتھ پچھلے ایک سال کے ساتھ کیا کیا ہے ،آپ اخبارات سے چیزیں پڑھ کر عدالتوں میں پیش ہوجاتے ہیں ۔

وکیل پنجاب حکومت نے جواب دیا کہ قانون سب کے لیے برابر ہے، عدالتوں کو انفرادی طور پر کسی خاص شخص کو خاص ریلیف نہیں دینا چاہیے۔جس پر جسٹس مس عالیہ نیلم نے کہا کہ آپ اپنے الفاظ کا استعمال دھیان سے کریں ۔ جسٹس انوار الحق پنوں نے کہا کہ ٹاک شوز والی باتیں عدالت میں نہ کریں ۔بعدازاں لاہور ہائیکورٹ کے لارجر بنچ نے سابق وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں