خواجہ آصف

ملک میں کئی ہزار ارب روپے کی ٹیکس چوری ہوتی ہے، صرف دو وزارتوں کا گردشی قرضہ 4000ارب روپے ہے، وزیر دفاع

اسلام آباد(گلف آن لائن)وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے انکشاف کیا ہے کہ ملک میں کئی ہزار ارب روپے کی ٹیکس چوری ہوتی ہے، صرف دو وزارتوں کا گردشی قرضہ 4000ارب روپے ہے، اگر مستقل تبدیلی چاہتے ہیں تو نقصان میں چلنے والے سرکاری اداروں کی نجکاری یا بند کرنا ہو گا، خلیجی ممالک میں کام کرنے والے پاکستانی تارکین وطن کی مٹی کی محبت سے سرشار ہیں، عمران خان کے کہنے پر ترسیلات زر بھجوانا بند نہیں کریں گے ،

عدلیہ تھوک کے حساب سے حکم امتناعی نہ دے،عدلیہ ملک کے ساتھ حکم امتناعی کے نام پر جو کر رہی ہے اس کی خود احتسابی کرے جبکہ وفاقی وزیر انسانی حقوق ریاض حسین پیرزادہ نے کہا ہے کہ پاکستان کو کوئی دوسرا ملک انسانی حقوق کا سبق نہ پڑھائے، کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کے بعد پاکستان میں مسلک کی بنیاد پر دہشت گردی میں کمی آئی ہے، پاکستان کی جیلوں میں 9 مئی کے واقعات میں گرفتار خواتین کی بے حرمتی کی باتیں ملک دشمن پھیلا رہے ہیں،

انسانی حقوق کے قومی کمیشن کو اس حوالے سے کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی، 9 مئی کے واقعات میں ملوث عناصر کے خلاف پاکستان کے آئین اور قانون کے مطابق کارروائی ہو رہی ہے۔بدھ کو قومی اسمبلی میں مالی سال2023-24 کے بجٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہاکہ 75 سال میں بنیادی تبدیلیاں لانے کے لئے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے گئے، موجودہ معروضی حالات میں آئندہ وفاقی بجٹ میں عوام کو ہر ممکنہ سہولیات کی فراہمی کی کوشش کی گئی ہے،

اس میں کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ انہوں نے ناممکن کو ممکن بنانے کی کوشش کی ہے، ہمارے دہائیوں کی معاشی ابتری کا سلسلہ اس مقام تک پہنچ چکا ہے جہاں عام آدمی کا سانس لینا مشکل ہے، ایک ایسا طبقہ ہے جسے ہر ممکنہ وسائل دستیاب ہیں، سود کی ادائیگی ہماری آمدن سے زیادہ ہے، ہمارے مسائل کی دیگر کے ساتھ دو بنیادی وجوہات ہیں جن کو سالوں اور دہائیوں میں حل نہیں کیا گیا، دو اداروں کا قرض ایک ہزار ارب سے زیادہ ہے، 86 ارب روپے صرف اس قرض پر سود ادا کیا جا رہا ہے، خسارے والے ادارے کی جلدی نجکاری ہو بہتر ہے۔ انہوں نے کہا کہ معاشی حالات سے ہر کوئی آگاہ ہے،

ہزاروں ارب روپے ایسے اداروں پر صرف کیا جا رہا ہے جس کا زندہ رہنا ممکن نہیں یہ ریاست کے خلاف جرم ہے، غربت مکائو اداروں نے غربت نہیں مکائی لیکن چیف ایگزیکٹو اور چیف آپریٹنگ افسران 30 سے 35 لاکھ روپے تنخواہ لے رہے ہیں اور انہوں نے حکم امتناعی حاصل کر رکھا ہے، یہاں ایک لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری آمدن کا بڑا ذریعہ ٹیکس محصولات ہیں، حال ہی میں ایک ادارے کی ایک سٹڈی آئی ہے جس نے پاکستان میں ٹیکس چوری کے اعداد و شمار دیئے ہیں، اس کے مطابق صرف ریئل اسٹیٹ میں 500 ارب روپے کا ٹیکس چوری ہوتا ہے،

تمباکو کے شعبے میں 240 ارب روپے، آٹو موبائل اور ٹائر 50 ارب روپے، آٹو لبریکینٹ 56 ارب روپے، فارماسوٹیکل 65 ارب روپے، چائے کی درآمد پر 45 ارب روپے کا ٹیکس چوری ہوتا ہے، ریٹیل سیکٹر میں 2880 ارب روپے کی ٹیکس چوری ہے، یارن میں 222 ارب روپے کی ٹیکس چوری ہے، ہزاروں ارب روپے کے محصولات چوری کرنے والے ملک میں ریلیف کا بجٹ کیسے پیش ہو سکتا ہے، وزیر خزانہ نے اس کے باوجود ہمت کی۔

انہوں نے کہا کہ ہماری آنے والی نسلوں کو تعلیم دینے والے اعلی تعلیمی اداروں کے کئی سربراہان کرپشن کر کے اربوں روپے کے مالک بن چکے ہیں جبکہ اپنی مدت مکمل کرنے کے بعد وہ حکم امتناع پر چل رہے ہیں، تجارتی تنظیموں میں بڑے بڑے سمگلر بیٹھے ہوئے ہیں جنہیں ایک سال کی ٹیکس چھوٹ دی گئی ہے، عام آدمی معمولی جرم پر گرفتار ہے جبکہ بڑے ڈاکہ ڈالنے والے کھلے عام پھر رہے ہیں، ایسے لوگ شادیوں پر اربوں روپے خرچ کر رہے ہیں، ایک سال میں ان کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کی کوشش کی تاہم ممکن نہیں ہو سکا، ایک مستحکم سیاسی حکومت ہی ان کے خلاف کارروائی کر سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بنیادی تبدیلیوں کے بعد منافع بخش یا سرپلس بجٹ ممکن نہیں، تمام معاشی بیماریوں کا علاج موجود ہے لیکن اس کے لئے عزم کا فقدان ہے، اعلیٰ عدالتوں میں 16 لاکھ روپے تک تنخواہیں ہیں تاہم ادارے زنگ آلود ہو چکے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس سے عدلیہ میں دراڑ پڑی، سیاست دانوں پر تنقید ہوتی ہے، ہم کھلے دل سے برداشت کرتے ہیں کیونکہ یہ ہمارا کام ہے لیکن یہ ادارے دو دو تین تین وزرائے اعظم کھا گئے، ایک کو پھانسی چڑھا دیا تاہم اس پر کسی نے معافی نہیں مانگی۔ انہوں نے کہا کہ ان تمام بیماریوں کا علاج عالمی مالیاتی اداروں، امداد دینے والے برادر ملکوں کے پاس نہیں بلکہ ہمارے پاس ہے جب تک ہم 30، 40 سال سے نقصان میں چلنے والے اداروں کی نجکاری نہیں کریں گے

یا انہیں بند نہیں کریں گے تو اس کے مردہ جسم سے ہڈیاں نوچنے کا سلسلہ جاری رہے گا، یہ لوگ عدالتوں سے حکم امتناعی لے آتے ہیں، بڑے تجارتی مراکز میں بجلی اور ٹیکس چوری کیا جاتا ہے۔ انہوںنے کہاکہ سٹیل ملز کی نجکاری روکنے کے بعد عدالتی حکم پر اربوں روپے تنخواہ میں دیئے گئے۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام کے حوالے سے معاہدے کے بادل منڈلا رہے ہیں، ناقابل تسخیر دفاع کے حامل جوہری ملک کو کوئی بیرونی خطرہ نہیں صرف معاشی حالات خطرہ ہیں، سرحدوں کا دفاع بھرپور انداز میں ہو رہا ہے تاہم معاشی دشمنی میں تمام ادارے شامل ہیں،

ہم اس کا الزام لے رہے ہیں کیونکہ سیاستدان کوئی معمولی کام بھی کرے تو اس کے اشتہار لگ جاتے ہیں، بیورو کریسی کو ریٹائرمنٹ کے بعد اس کی تنخواہ کا 70 فیصد پنشن ملتی ہے، ساتھ ملازمین بھی گھر لے جاتے ہیں، تمام سرکاری مراعات بھی استعمال کرتے ہیں لیکن ہم اگر ایم این اے نہیں رہتے تو ہمیں پارلیمنٹ لاجز میں گھسنے نہیں دیا جاتا۔ انہوںنے کہاکہ پی اے سی اور قائمہ کمیٹیاں ہمارے ہتھیار ہیں، ان کی استعداد کار بڑھا کر پورا فائدہ اٹھا سکتے ہیں، عدلیہ تھوک کے حساب سے حکم امتناعی نہ دے، وہ ملک کے ساتھ جو کر رہی ہے اس پر خود احتسابی کرے۔

انہوں نے کہا کہ 2018 کے انتخابات میں دھاندلی سے اقتدار میں آنے والے شخص کی جانب سے 9 مئی کو کچھ ہزار افراد کے جھتے کے ساتھ ریاست کو یرغمال بنانے کی کوشش کی گئی، اب اس کا الزام دوسروں پر لگا رہا ہے، یہ سب منصوبہ بندی کے ساتھ کیا گیا تو کیا اس کی بہنیں، اس کی کابینہ کے وزرا اور اراکین پارلیمان بھی اس منصوبہ بندی میں شامل تھے جو جی ایچ کیو، کور کمانڈر ہائوس اور میانوالی ایئر بیس پر حملہ آوروں کی قیادت کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ان حملوں میں 3200شر پسندوں کی شناخت ہو چکی ہے، کیپٹن کرنل شیر خان کی بہادری کی تعریف بھارتی فوجی بھی کرتے ہیں تاہم ان کا مجسمہ بھی توڑ ڈالا، شہدا کی یادگاروں کو مسمار کیا گیا، 9 مئی کو پاکستان کے خلاف شدید نفرت کا اظہار کیا گیا، دفاعی اثاثوں پر حملہ کیا گیا،

یہ کسی کی ذاتی ملکیت نہیں بلکہ قومی اثاثے ہیں، ایسے لوگ پاکستانی نہیں ہو سکتے۔ انہوں نے کہا کہ 75سال میں ہمارا ازلی دشمن بھی یہ کام نہیں کر سکا، ایک لاڈلے نے 9 مئی کو اس قوم کو ڈسا، وہ کہتا ہے کہ میرے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، کیا اس کو اس ایوان سے مستعفی ہونے اور اپنی دو منتخب حکومتیں ختم کرنے کا مشورہ ہم نے دیا تھا، پھر ان تینوں کی بحالی کے لئے عدالت چلا گیا۔ وزیر دفاع نے کہا کہ اس ملک کو خطرہ ہماری نازک معیشت سے ہے، ہمارے پاس وسائل ہیں، ہم اپنے زخموں کا علاج ڈھونڈ سکتے ہیں تاہم اس کیلئے عزم نہیں ہے، اس میں تمام ادارے شامل ہیں، کسی ادارے کی نجکاری کا سوچیں تو ہاتھ پائوں پھول جاتے ہیں کہ نیب اور اینٹی کرپشن بلا لے گی، ہمیں اپنی معیشت اور محصولات کا نظام ٹھیک کرنا ہو گا،

بدقسمتی سے ملک سے بڑے شہروں اور بڑی مارکیٹوں میں بجلی چوری ہوتی ہے، اس وقت چار ہزار ارب روپے کا بجلی اور پٹرولیم کے محکموں کا گردشی قرضہ کا ہے، بجلی کے نچلے سلیب کا فائدہ اٹھانے کیلئے ایک ایک گھر میں تین تین میٹر لگے ہوئے ہیں، وسائل پر چند لوگوں کا قبضہ ہے، اتنی تفاوت والا معاشرہ زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکتا، یہ ہمارے لئے بیدار ہونے کا موقع ہے۔ انہوں نے کہا کہ تمباکو کی صرف دو بیرونی کمپنیاں 175 ارب روپے ٹیکس دیتی ہیں جبکہ باقی 40 فیصد کمپنیوں کا ٹیکس 100 ارب روپے ہے اور بدقسمتی سے ان میں سے کچھ لوگ ان ایوانوں میں بھی پہنچ چکے ہیں،

بڑے بڑے ٹی وی چینلز 190 ملین پائونڈ جس کے اکائونٹ میں گئے اس کا نام لینے سے کتراتے ہیں۔ وزیر دفاع نے کہا کہ عمران خان کو لیڈر ماننے والے پست ذہنیت کے مالک ہیں جو بیرون ملک میں بیٹھے ترسیلات زر بند کرنے کی دھمکیاں دیتے ہیں، ترسیلات زر کا بڑا حصہ خلیجی ممالک سے آتا ہے، یورپ اور امریکا ، کینیڈا میں رہنے والے اپنے آبائو اجداد کو صرف یہاں دفنانے آتے ہیں اور پھر یہاں سے زمینیں بیچ کر واپس چلے جاتے ہیں، انہوں نے غیر ملکی آقائوں کی وفاداری کا حلف اٹھا رکھا ہے، وہ باہر بیٹھ کر اپنے ملک کے خلاف سازشیں کرتے ہیں، انہیں شرم آنی چاہیے کہ اس ملک نے انہیں عزت دی ہے،

خلیجی ممالک میں 50 ڈگری سینٹی گریڈ کی شدید گرمی میں کام کرنے والوں نے اسی ملک میں واپس آنا ہے، انہیں اس وطن کی مٹی سے محبت ہے، وہ پاکستان ترسیلات زر بھجواتے ہیں، وزیر دفاع نے کہا کہ اگر ہم نے مستقل تبدیلی لانی ہے تو نقصان میں چلنے والے سرکاری اداروں کو بند کرنا ہو گا یا ان کی نجکاری کرنا ہو گی، بجٹ میں عام آدمی کو ریلیف ضرور ملی ہے تاہم یہ کافی نہیں ہے۔پیپلز پارٹی کے رکن رمیش لال نے کہا کہ اقلیتی اراکین کو گزشتہ حکومت میں ترقیاتی فنڈز نہیں دیئے گئے،ہمیں بھی ترقیاتی فنڈز دیئے جائیں،اقلیتوں کو گرونانک کے جنم دن،کرسمس اور دیوالی پر مالی معاونت کی جائے،ہمارے لیڈروں کو گزشتہ دور میں جیل میں ڈالا گیا۔

انصاف کی فراہمی میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ غریب کو انصاف ملنا مشکل ہے، قدرتی آفات سے بچنے کے لئے دعائوں کی ضرورت ہے۔ڈہرکی میں شاندار فلائی اوور ہیڈ برج کا کریڈٹ آصف زرداری کو جاتا ہے۔اقلیتوں کو مساوی ترقیاتی بجٹ دیا جائے۔ رمیش لعل نے کہا کہ جیل میں قیدیوں کو دودو سال سماعت پر نہیں لے جاتے۔ پاکستان میں سیاحت،زراعت کے لئے سازگار ماحول ہیں۔ہمارے ملک جیسا کوئی نہیں ہے۔میر منور تالپور نے کہا کہ رمیش لعل نے یہ کہا کہ لوگ جیلوں میں سڑتے ہیں اور انہیں عدالت کے سامنے پیش نہیں کیا جاتا۔

انہوںنے کہاکہ قیدی جیلر کے پاس ہوتے ہیں،میں 8 بار گرفتار ہوا لیکن کسی نے ازخود نوٹس نہیں لیا گیا۔میری اہلیہ کو چاند رات کو گرفتار کیا گیا،پی ٹی آئی کے لوگ گرفتار ہوتے ہیں تو انہیں فوری ضمانتیں ملتی ہیں،جیلوں میں انسانی حقوق کی پاسداری نہیں۔ اس کے جواب میں وفاقی وزیر انسانی حقوق ریاض حسین پیرزادہ نے کہا کہ کوئی ہمیں انسانی حقوق کا سبق نہ پڑھائے، 9 مئی کے حملہ آوروں کے ساتھ پاکستان کے آئین وقانون کے مطابق نمٹا جارہا ہے۔ انہوںنے کہاکہ قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کو جیلوں میں خواتین کے ساتھ بدسلوکی کی ایک بھی درخواست نہیں ملی، بدقسمتی سے ملک دشمن ایک ٹویٹ کرکے پاکستان کو بدنام کرنے کا آغاز کرتے ہیں پھر ساتھ ہی بیرون ملک سے اسے ہوا دی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اقلیتوں کو در پیش مشکلات کے حوالے سے پوری طرح آگاہ ہیں،پڑوسی ملک پاکستان میں مذہبی منافرت پھیلانے کے لئے مداخلت کرتا ہے، کلبھوشن کی گرفتاری کے بعد کوئٹہ میں مسلک کی بنیاد پر ٹارگٹ کلنگ کم ہوئی ہے۔ انہوںنے کہاکہ قیام پاکستان کے فوری بعد کشمیر کی قرارداد آتے وقت انڈیا نے کراچی میں آگ لگوائی تھی پھر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں یہ معاملہ لے گئے۔ انہوں نے کہا کہ اعلیٰ اقدار اور روایات ہمارے ملک کی ہیں۔ انہوںنے کہاکہ دیوالی، ہولی اور عید کے تہواروں کا احترام ہونا چاہیے،افغانیوں نے جان قربان کرکے اپنی روایات برقرار رکھیں۔

انہوں نے کہا کہ جیل میں عورتوں کی بے حرمتی کا الزام درست نہیں ہے،ایسا کبھی نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ عدالتیں عام لوگوں کے کیس سنیں، دروازے بند کرکے کیس سننے کی روایت درست نہیں۔ انہوں نے کہا کہ معمولی جرائم کے کیسز کی فیس وزارت انسانی حقوق دے گی، غریب کی مدد ہمارا فرض ہے اس کا حلف اٹھایا ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ اقلیتی برادری کو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے فنڈ دیں گے۔ایوان میں اظہار یخال کرتے ہوئے وفاقی وزیر موسمیاتی تبدیلی شیری رحمان نے بتایا کہ سائیکلون کافی دنوں سے پیشنگوئی کے مطابق آگے بڑھ رہا ہے، مختلف ممالک کے سسٹم کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں۔

انہوںنے کہاکہ یہ طوفان بہت شدت کے ساتھ پاکستان اور انڈیا کی ساحلی پٹی کی طرف بڑھ رہا ہے،راستہ وہی ہے جو ہم نے پیش گوئی کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس طوفان کا کیٹی بندر سے شدید ٹکرائو متوقع ہے، 140 سے 150 فی کلومیٹر کی رفتار سے ہوائیں چل رہی ہیں۔سندھ حکومت اس کی مانیٹرنگ کررہی ہے۔ انہوںنے کہاکہ ٹھٹھہ، سجاول، حب سمیت کراچی کے ساحلی علاقے متاثر ہونے کا اندیشہ ہے، این ڈی ایم اے اور سندھ وبلوچستان حکومت کے ساتھ مل کر وزیراعظم کی طرف سے قائم کردہ کمیٹی مکمل طور پر فعال کردار ادا کر رہی ہے، ساحلی علاقوں کے طوفان سے متاثرہ لوگوں کے لئے مختلف سرکاری عمارتوں میں 75 ریلیف کیمپس بنائے گئے ہیں، وہاں لوگوں کو پہنچایا گیا ہے، اب تک 62 ہزار افراد کو کیمپوں میں منتقل کیا ہے۔

سندھ حکومت اس سارے عمل کو لیڈ کر رہی ہے، پی ڈی ایم اے بھی اس میں کردار ادا کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ کوسٹ گارڈ، نیوی، رینجرز تعینات ہیں، پولیس بھی فعال ہے۔ انہوںنے کہاکہ5کور کمانڈر کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں وہ بھرپور تعاون کررہے ہیں،سائیکلون کے گزر جانے کے بعد اس سے ہونے والے نقصانات کا جائزہ لیا جائے گا۔ انہوں نے نقل مکانی کرنے والوں کو کہا کہ پریشانی فطری بات ہے تاہم منصوبہ بندی اور منطق سے سکیورٹی اہلکاروں کی بات ماننی ہے، جب تک یہ نہیں کہتے یہاں سے نکلنا نہیں ہے۔ انہوںنے کہاکہ ماہی گیر پھر بھی نکل رہے ہیں ان کو زبردستی واپس لایا جارہا ہے،

ہم جانیں بچانے کے مرحلہ میں ہیں۔ انہوںنے کہاکہ نقل مکانی کرنے والوں کو پینے کا پانی اور کھانا و ادویات فراہم کی جا رہی ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ خوف وہراس نہ پھیلے، عوام ساحل کی طرف جانے سے اجتناب کریں، طوفانی ہوائیں جمعرات کو انتہا پر ہوں گی، احتیاطی تدابیر کے طور پر سولر پینل کو محفوظ بنائیں، بل بورڈ اتارے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کی طرف سے بنائی گئی کمیٹی میں وفاقی وزیر پانی و پٹرولیم بھی کمیٹی میں شامل ہیں، وزیر اعظم نے ان کو ہدایت کی ہے کہ اپنے اعلی حکام کراچی بھیجیں۔ اگر ایل این جی کارگو نہ پہنچ سکیں تو ہنگامی حالات میں اقدامات کی ہدایات کی گئی ہیں۔

انہوںنے کہاکہ ٹرانسمیشن لائنوں کو کسی نقصان پر فوری بحالی کے لئے عملے کی موجودگی یقینی بنانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نقل مکانی لازمی ہے اس پر کسی قسم کی مزاحمت نہ کریں جہاں منتقل کیا جارہا ہے وہاں منتقل ہوں۔ مویشیوں کی منتقلی کے لئے ہر ممکنہ امداد دی جارہی ہے۔ وقتا فوقتا ہدایات جاری کی جارہی ہیں۔چھوٹے جہازوں کی پروازیں بندکی ہیں باقی کمرشل پروازوں کے بارے میں شام کو فیصلہ کریں گے۔ یہ طوفان بپر جوائے موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہے۔سندھ سے رکن قومی اسمبلی غوث بخش مہر نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے غوث بخش مہر نے کہا کہ بجٹ کے لئے یہ خصوصی اجلاس نہیں بلایا گیا، پہلے سے جاری اجلاس میں بجٹ پیش کر دیا گیا اور ہمیں اعتماد میں نہیں لیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ہر دور میں یہ کوشش ہوتی رہی ہے کہ بجٹ کے ذریعے حالات کو بہتر بنایا جائے، گزشتہ سال ہر لحاظ سے بہت خراب گزرا کہ سندھ کے سیلاب زدگان ابھی تک مشکلات کا شکار ہیں، پھر پانی آ رہا ہے، مگر بیراجوں پر مرمت کا کام ابھی تک شروع نہیں ہو سکا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے، بیجوں اور کھادوں میں کاشتکاروں کو کوئی ریلیف نہیں دیا گیا، چیئرمین پی ٹی آئی کے ساتھ جو کرنا ہے ضرور کریں مگر عوام کو ریلیف فراہم کریں ۔ انہوں نے کہا کہ سیاست سے بالاتر ہو کر قوم کی خدمت کی جائے، حکومت کو چاہیے کہ الیکشن کرائے اور ہر وقت کی تنقید سے اپنی جان چھڑائے۔

انہوں نے کہا کہ سی پیک کے خلاف عالمی سطح پر سازش ہو رہی ہے اس کو جلد از مکمل کیا جائے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ صوبوں میں بیجوں پر تحقیق کے لئے لیبارٹریاں بنائی جائیں، موجودہ حکومت آئین اور قانون کے تحت برسراقتدار آئی ہے، کوئی اسے ہٹانے والا نہیں ہے، وزیراعظم کے شمسی توانائی کے رقم مختص کر کے اچھا کام کیا ہے، اب شمسی توانائی کے بغیر کام نہیں چلے گا۔وفاقی وزیر میاں جاوید لطیف نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے وفاقی وزیر میاں جاوید لطیف نے کہا کہ 75 سالوں کے بعد پہلا موقع ہے کہ اس پر تنقید کرنے والا بھی کوئی نہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ چار سالوں میں انہوں نے کچھ نہیں چھوڑا۔

سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا گیا مگر یہ سب کچھ ناکافی ہے کیونکہ پوری قوم مشکلات کا شکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی مالیاتی اداروں کو کسی بھی ریاست کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے، ہمارے میں یہ مداخلت اس لئے ہے کیونکہ گزشتہ چند سالوں کے دوران ملک کو ہر لحاظ سے کمزور کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ جس شخص نے ملک کو راکھ کا ڈھیر بنانے کی کوشش کی بیرونی قوتیں اس شخص کی پشت پناہی کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 9 مئی کے واقعہ نے ملک کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا، کسی بھی سیاسی قوت نے کبھی دفاعی تنصیبات کو نشانہ نہیں بنایا۔

انہوں نے کہا کہ اگر 9 مئی کے واقعہ پر ثبوت ہونے کے باوجود حقیقت سامنے نہیں لائی جائے گی اور دہشت گردوں اور سہولت کاروں کو چھوڑ دیا گیا تو ملک نہیں چل سکتا، پاکستان صرف اور صرف آئین اور قانون کی حکمرانی سے چل سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ان عناصر کو کون تحفظ فراہم کر رہا ہے، 2017 میں بھی پاکستان کو ڈبونے کی سازش کی گئی، جو بھی ان معاملات میں ملوث رہا ان کے خلاف قانون کے تحت کارروائی عمل میں لائی جائے۔ انہوںنے کہاکہ نواز شریف کو پاناما میں سزا دینے کے حوالے سے اس وقت کے ذمہ دار لوگ بھی حقائق بیان کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اداروں کو چاہیے کہ ملک کے خلاف ان واقعات کے مرتکب عناصر کی ثبوتوں کے ساتھ نشاندہی کی جائے، ڈاکٹر یاسمین راشد، پرویز الہی اور القادر ٹرسٹ کے ٹرسٹی کو بغیر نوٹس کے بری کر دیں گے تو کہاں کا انصاف ہے۔ میاں جاوید لطیف نے کہا کہ نواز شریف کی سزا کے حوالے سے اس وقت کے کردار بھی اسے غلط کہہ رہے ہیں، اس معاملے پر کیا جے آئی ٹی نہیں بننی چاہیے، ایک سینئر وکیل کو آواز اٹھانے پر قتل کر دیا گیا، ارشد شریف کے قتل پر ورثا کو انصاف نہیں مل رہا۔ انہوں نے کہا کہ 2017 کو شب خون مارا گیا اس وقت کے تمام کردار نواز شریف کو ریڈ کارپٹ بچھا کر واپس لائیں اور ان سے معافی مانگیں، اداروں میں موجودہ حاضر سروس لوگوں کو چاہیے کہ وہ نواز شریف سے کہیں کہ ماضی میں غلطیاں ہوئیں، نواز شریف عالمی سطح پر معتبر لیڈر ہے، اس کے بغیر ملک نہیں چل سکتا۔انہوںنے کہاکہ نواز شریف کے ساتھ 2017 میں زیادتی کرنے والوں کو ان سے معافی مانگ کر انہیں ریڈ کارپٹ بچھا کر وطن واپس لانا چاہیے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں