نگران وزیراعظم

بھارت کی عدم توجہی کے باوجود پاکستان تاپی گیس پائپ لائن منصوبہ مکمل کرنے کیلئے پرعزم ہے،نگران وزیراعظم

تاشقند(نیوز ڈیسک)نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ بھارت کی عدم توجہی کے باوجود پاکستان اپنی اور خطے کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے تاپی گیس پائپ لائن منصوبہ مکمل کرنے کیلئے پرعزم ہے،پاک بھارت تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرناہوگا، پاکستان اسلامی تعاون تنظیم کے آئندہ خصوصی اجلاس میں شرکت کا منتظر ہے ،او آئی سی کوغزہ کی صورت حال پر غور کرنا چاہیے اور اجتماعی ردعمل ظاہر کرنا چاہیے۔تاشقند میں اقتصادی تعاون تنظیم کے16ویں سربراہی اجلاس کے موقع پر غیر ملکی میڈیا کو دیئے گئے انٹرویو میں انہوں نے کہاکہ خطے میں ایک کھلا انسانی المیہ نظر ارہا ہے اور اس کا اثر نہ صرف خطے میں بلکہ شاید خطے سے باہر بھی پڑے گا۔

انہوں نے غزہ میں جنگ کے ”فوری”خاتمے پر زوردیا،وزیراعظم نے خوراک، ادویات اور دیگر ضروری اشیاء کی بلا تعطل فراہمی کے لیے انسانی راہداری کے قیام کا مطالبہ بھی کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی)کے آئندہ خصوصی اجلاس میں شرکت کا منتظر ہے او آئی سی کوغزہ کی صورت حال پر غور کرنا چاہیے اور اجتماعی ردعمل ظاہر کرنا چاہیے ،بغیر دستاویزات مقیم افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے کے پاکستان کے اقدام کا دفاع کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کے ملک نے یہ فیصلہ تھوڑی تاخیر سے کیا تاہم ہم سرحد پرآمد و رفت کو منظم کرنے کے لیے بہت زیادہ پرعزم ہیں۔

انہوں نے کہاکہ دنیا میں کہیں بھی اور کسی بھی ملک کی طرف سے غیر قانونی امیگریشن کی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی ہے تو پاکستان کے ساتھ خصوصی طور پر یہ سلوک کیوں کیا جاتا ہے کہ وہ غیر دستاویزی افغان شہریوں کے ساتھ بصورت دیگر سلوک کرے۔انہوںنے کہاکہ ہر ملک دوسرے ممالک کے شہریوں کی منظم آ مدورفت چاہتا ہے،طویل مدت میں یہ افغان شہریوں اور پاکستانیوں کے بہترین مفاد میں ہو گا کہ باقی دنیا کی طرح معمول کے مطابق منظم آمدورفت ہو۔ترکیہ اور پاکستان کے درمیان دو طرفہ تعلقات کو شاندارقرار دیتے ہوئے انہوں نے ترکی اور پاکستان کے درمیان روابط اور تعاون کو بڑھانے پر زور دیا۔

انہوں نے کہا کہ تجارت، زراعت اور دفاع جیسے بہت سے شعبے ہیں جن میں تعلقات کو بہتر بنایا جا سکتا ہے اور کچھ راہداریوں کو ترقی دے کر ترکیہ ،پاکستان اور ایران کے درمیان رابطے کو بحال کیا جا سکتا ہے، جو تمام اقوام اور پورے خطے کو بہت سے مواقع فراہم کرے گا۔ترکمانستان، افغانستان، پاکستان اور انڈیا (تاپی) جو اربوں ڈالر کا توانائی کوریڈور ہے، کے بارے میں وزیر اعظم نے کہا کہ بھارت کی جانب سے مبینہ عدم دلچسپی کے باوجود پاکستان کی توجہ طویل عرصے سے زیر التوا منصوبے سے فوائد حاصل کرنے پر مرکوز ہے۔

انہوںنے کہاکہ تاپی کے حوالے سے ترکمانستان، افغانستان اور پاکستان کی طرف سے کافی جوش و خروش پایا جاتا ہے،یہ بھارتی معیشت کو توانائی کی سستی اور پائیدار فراہمی کو یقینی بنا سکتا ہے تاہم اگر وہ اس پورے انتظامات کے فائدے سے باہر رہنے کا انتخاب کرتے ہیں، تو وہ اب بھی ایسا کر سکتے ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ بھارت کے ساتھ یا اس کے بغیر، ترکمانستان کی گیس کو اس خطے کے معاشی فائدے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے اور ہم اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے بہت زیادہ توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔7 ارب ڈالر کے اس منصوبے کا مقصد ترکمانستان کے گلکنیش اور ملحقہ گیس فیلڈز سے قدرتی گیس افغانستان، پاکستان اور بھارت تک پہنچانا ہے۔

انہوںنے کہاکہ ایشیائی ترقیاتی بینک اس منصوبے میں سہولت اور تعاون فراہم کر رہا ہے، جس میں 56 انچ قطر کی 1680 کلومیٹر (1044 میل) پائپ لائن بچھانے کی تجویز ہے جس کے ڈیزائن کی گنجائش 33 ارب مکعب میٹر سالانہ قدرتی گیس ترکمانستان سے افغانستان اور پاکستان کے راستے پاک بھارت سرحدتک پہنچائی جائے گی۔دیرینہ حریف بھارت کے ساتھ پاکستان کے دیرینہ کشیدہ تعلقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے اس بات کا اعادہ کیا کہ دو جوہری ہتھیاروں سے لیس پڑوسیوں کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے کشمیر کے تنازعے کو حل کرنا ہوگا۔انہوں نے کہاکہ کشمیر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ایک تصفیہ طلب مسئلہ ہے۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان کا روایتی موقف ہے کہ اسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جانا چاہیے۔

انہوںنے کہاکہ کشمیریوں کو اپنے مستقبل، اپنی تقدیر کا تعین کرنے کا پورا حق حاصل ہے اور پاکستان ہمیشہ سفارتی اور سیاسی طور پر ان کیاس موقف کی حمایت کریگا۔انہوںنے کہاکہ اگر دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانا ہے تو مسئلہ کشمیر کو حل کرنا ہوگا،کب اور کیسے تعلقات کو معمول پر لایا جا سکتا ہے اس کا جواب تلاش کرنا ”یقینی طور پر”معاشرے کے ہر طبقے بشمول قیادت، دانشوروں، کاروباری افراد اور دونوں ممالک کی سول سوسائٹی کے لیے ایک چیلنج ہے۔

انہوں نے مزید کہاکہ اگر خطے کو باہمی طور پر ایک دوسرے سے فائدہ اٹھانا ہے تو اسے معمول پر لانا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ وہ ایک پرامیدانسان ہیں اور جب بھی مشکل حالات ہوتے ہیں توانہیں ہمیشہ ایک امید رہتی ہے اور ایسا ہی ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات بارے ہے،ہم نے تین جنگیں لڑی ہیں لیکن کیا دو ارب کی آبادی ہمیشہ کے لیے جنگ کی حالت میں رہ سکتی ہے؟۔

اپنا تبصرہ بھیجیں