جلیل عباس جیلانی

ایران سے دیرینہ ثقافتی، مذہبی اور برادرانہ تعلقات ہیں، جلیل عباس جیلانی

اسلام آباد(نمائندہ خصوصی)پاکستان اور ایران کے وزرا ئے خارجہ نے ملاقات، مشترکہ چیلنجوں سے نمٹنے کیلیے اجتماعی نقطہ نظر کی بنیاد پر کام کرنے پر اتفاق کیا ہے جبکہ نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے کہا ہے کہ ایران اور پاکستان دوست ہمسایہ ملک ہیں، ایران سے دیرینہ ثقافتی، مذہبی اور برادرانہ تعلقات ہیں، مضبوط تعلقات دونوں ممالک کی ترقی کے لیے اہم ہیں۔

پیر کو نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی اور ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان کے درمیان پیرکویہاں وزارت خارجہ میں ملاقات ہوئی ۔ ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق دونوں وزرائے خارجہ نے پاکستان اور ایران کے درمیان دوطرفہ تعاون پر تبادلہ خیال کیا۔انہوں نے دوطرفہ تعلقات کو مثبت انداز میں آگے بڑھانے کے لئے مضبوط مکالمے اور تعاون کی اہمیت پر زور دیا۔

اس موقع پر دونوں فریقوں نے امن اور خوشحالی کے مطلوبہ مقاصد کے حصول کیلئے باہمی احترام کی بنیاد پر اور مشترکہ چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے اجتماعی نقطہ نظر کی بنیاد پر کام کرنے پر اتفاق کیا۔بعد ازاں ایرانی وزیر خارجہ امیر عبداللہیان کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے نگران وزیر خارجہ نے کہاکہ ایرانی ہم منصب اور ان کے ہمراہ وفد کو پاکستان میں خوش آمدید کہتے ہیں۔انہوںنے کہاکہ ایران پاکستان کا دوست ہمسایہ ملک ہے، ایران سے دیرینہ ثقافتی، مذہبی اور برادرانہ تعلقات ہیں، ایرانی وفد سے تفصیلی باہمی مفاد کے مختلف امور پر بات چیت ہوئی ہے۔

نگراں وزیرِ خارجہ نے کہا کہ ایران اور پاکستان کے مضبوط تعلقات دونوں ملکوں کی ترقی کے لیے اہم ہیں، پاکستان ایران سے تعلقات اور مختلف شعبوں میں وسعت دینے کا خواہاں ہے۔انہوںنے کہاکہ دہشت گردی کے خلاف مشترکہ کارروائیوں کی ضرورت ہے، دہشت گردوں کے خلاف ایک مضبوط لائحہ عمل ضروری ہے۔نگراں وزیرِ خارجہ جلیل عباس جیلانی نے کہا کہ دہشت گردی کا مسئلہ دونوں ممالک کا مشترکہ چیلنج ہے،

سرحدی علاقوں میں معاشی سرگرمیوں کا فروغ ضروری ہے۔انہوں نے کہا کہ بارڈر مارکیٹوں میں تجارتی سرگرمیاں وقت کی ضرورت ہیں، اعلی سطح کا لائحہ عمل پاکستان اور ایران کے مفاد میں ہے۔نگراں وزیرِ خارجہ جلیل عباس جیلانی نے کہا کہ تربت اور زاہدان میں دونوں ممالک کے نمائندہ افسران رابطے کیلئے موجود ہوں گے۔اس موقع پر ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایران اور پاکستان میں مقیم افراد کو ایک ہی قوم سمجھتے ہیں، پاکستان کے ساتھ اہم برادرانہ تعلقات ہیں۔

انہوں نے کہاکہ پاکستان کے ساتھ جغرافیائی تعلقات بھی اہمیت کے حامل ہیں، پاکستان کی سیکیورٹی ہمارے لیے مقدم ہے۔انہوں نے کہاکہ پاکستان اور ایران دہشت گردوں کو کوئی موقع نہیں دیں گے، دہشت گردوں نے ایران کوبہت نقصان پہنچایا، بارڈر پر موجود دہشت گرد دونوں ممالک کی سلامتی کیلئے خطرہ ہیں۔ایرانی وزیرخارجہ نے کہاکہ مذاکرات کے دوران دہشت گردی کے خلاف اقدامات پر گفتگو ہوئی، بارڈر پر موجود تجارتی مراکز کو فعال کرنے پر بھی بات چیت ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کومشترکہ سلامتی کونقصان پہنچانے نہیں دیں گے، ایران اور پاکستان کے درمیان تعمیری اور مضبوط تعلقات ہیں۔انہوںنے کہاکہ مشترکہ بارڈر پر موجود دہشت گرد دونوں ممالک کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔واضح رہے کہ ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان گزشتہ روز ایک روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچے تھے۔ایرانی وزیر خارجہ ایسے موقع پر پاکستان کے دورے پر آئے ہیں جب دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات گزشتہ کچھ عرصے سے کافی کشیدہ ہوئے۔

دونوں ملکوں میں کشیدگی کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب 17 جنوری کو ایران کی جانب سے پاکستان کی فضائی حدود میں حملے کے نتیجے میں 2 معصوم بچے جاں بحق اور 3 بچیاں زخمی ہو گئی تھیں۔ایران کی جانب سے اپنی فضائی حدود کی خلاف ورزی کے 48 گھنٹے سے بھی کم وقت کے اندر پاکستان نے 18 جنوری کی علی الصبح ایرانی صوبے سیستان و بلوچستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملہ کیا تھا جس میں متعدد دہشت گرد مارے گئے تھے۔

19 جنوری کو پاکستان کے نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی اور ان کے ایرانی ہم منصب امیر عبدالہیان کے درمیان ان واقعات کے بعد دوسرا ٹیلیفونک رابطہ ہوا تھا۔گزشتہ روز پاک ایران حالیہ کشیدگی میں کمی اور مفاہمت کے بعد پاکستان اور ایران کے سفرا اسلام آباد اور تہران میں اپنے اپنے سفارت خانوں میں پہنچ گئے تھے لیکن ابھی سفرا کو سفارتخانوں میں 24 گھنٹے ہی گزرے تھے کہ ایران میں پاک ایران سرحدی علاقے بمپشت سروان میں نامعلوم مسلح افراد نے 9 پاکستانی شہریوں کو قتل کردیا تھا۔

ایران میں پاکستانی سفیر مدثر ٹیپو نے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ سراوان میں 9پاکستانیوں کے ہولناک قتل پر گہرا صدمہ ہے، پاکستانی سفارت خانہ سوگوارخاندانوں کی مکمل مدد کرے گا اور ایران سے مطالبہ کیا کہ وہ پاکستانیوں کے قتل کے واقعے کی تحقیقات میں تعاون کرے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں