سپریم کورٹ

جب کوئی جج سچ بولتا ہے تو اس کے خلاف ریفرنس دائر ہو جاتے ہیں، جسٹس اطہر من اللہ

اسلام آباد(نمائندہ خصوصی)اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6ججز کے عدلیہ میں مداخلت کے الزامات کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں پر سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے عیسی نے ریمارکس دیے کہ انٹیلیجنس ادارے کچھ کرتے ہیں تو اس کے ذمہ دار وزیر اعظم اور ان کی کابینہ ہے۔جب کوئی جج سچ بولتا ہے تو اس کے خلاف ریفرنس دائر ہو جاتے ہیں،ججز نے ریمارکس دیے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی سفارشات یا تجاویز نہیں بلکہ چارج شیٹ ہے،جب لوگ پٹری سے ہٹ جائیں تو پھر قانون سازی کی ضرورت پڑ جاتی ہے، حکومت آخر کب قانون سازی کرے گی؟ہم کسی صورت عدلیہ میں مداخلت نہیں کرنے دیں گے، جو دروازے کھولتے ہیں ان کے خلاف مس کنڈکٹ کا کیس ہونا چاہیے،نجی ٹی وی کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی زیر سربراہی بینچ میں جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر افغان شامل ہیں، جسٹس یحیی آفریدی نے دو صفحات پر مشتمل نوٹ میں بینچ میں شامل ہونے سے معذرت کر لی تھی۔سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ کمرہ عدالت میں کوئی کراس ٹاک نہ کرے، عدالتی وقار کا احترام کریں، جس نے عدالت میں گفتگو کرنی ہے وہ کمرہ عدالت چھوڑ کر چلا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ وضاحت کرنا چاہتا ہوں کے 184تین کے تحت کیس کیسے لگایا گیا، کمیٹی نے فیصلہ کیا تھا کہ تمام موجود ججز پر بنچ تشکیل دیا جائے، جسٹس یحیی آفریدی نے کیس میں بیٹھنے سے معذرت کی اور وجوہات بھی دیں، گزشتہ سماعت پر فل کورٹ بنانے کا عندیہ دیا تھا لیکن 2ججز موجود نہیں تھے۔جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ ملک میں بہت زیادہ تقسیم ہے، لوگ شاید عدلیہ کی آزادی نہیں چاہتے، سابق چیف بھی کمیشن کا سربراہ بنے، ان پر بھی لوگوں نے دباو ڈالا، میں اس عدالت کی ماضی کی تاریخ کا ذمہ دار نہیں ہوں۔ان کا کہنا تھا کہ میں نے چیف جسٹس بننے کے بعد فل کورٹ بنائی، پارلیمنٹ کا شکر گزار ہوں جس نے پریکٹس اینڈ پروسیجر بنائے۔چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل منصور اعوان سے مکالمہ کیا کہ آپ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کی سفارشات دیکھی ہیں؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ میں ہائی کورٹ کی سفارشات ابھی نہیں دیکھیں۔چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ اب اس معاملے کو کیسے آگے چلائیں؟ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اٹارنی جنرل یہ سفارشات یا تجاویز نہیں بلکہ چارج شیٹ ہے۔بعد ازاں اٹارنی جنرل نے عدالت میں ہائی کورٹ کی سفارشات پڑھ کر سنائی۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ ہم نے ہائی کورٹ کے کام میں مداخلت نہیں کرنی، ماضی میں ہائی کورٹس کے کام میں مداخلت کے نتائج اچھے نہیں نکلے،جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کہہ رہے ہیں کہ مداخلت تسلسل کے ساتھ ہوتی ہے، کیا اسلام آباد ہائیکورٹ کی تجاویز متفقہ ہیں؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جی ہاں بظاہر متفقہ نظر آرہی ہیں،جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ اس کا مطلب ہے کہ کسی جج نے اختلاف نہیں کیا۔بعد ازاں سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کی جانب سے بھجوائی گئی تجاویز پبلک کرنے کا حکم دے دیا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جب ہر چیز ہی میڈیا پر چل رہی ہے تو ہم بھی پبلک کر دیتے ہیں، انہوں نے دریافت کیا کہ کیا جو نکات بتائے گئے ان پر آئین کے مطابق ہائی کورٹ خود اقدامات نہیں کر سکتی؟اٹارنی جنرل نے چیف جسٹس سے کہا کہ ہائیکورٹ بالکل اس پر خود اقدامات کر سکتی ہے ، اس پر جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ جسٹس اعجاز نے تجاویز کے ساتھ اضافی نوٹ بھی بھیجا ہے۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ جسٹس اعجاز کا اضافی نوٹ بھی پڑھیں، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کون کون سے نکات ہیں جن پر ہائیکورٹ خود کارروائی نہیں کر سکتی؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سب نکات پر خود ہائیکورٹ کارروائی کر سکتی ہے، قاضی فائز عیسی نے کہا کہ تو پھر کیا سپریم کورٹ ہائیکورٹس کو ہدایات دے سکتی ہے؟

جسٹس اطہر من اللہ نے ریماکرس دیے کہ ہمیں ہائیکورٹ کی بھجوائی تجاویز کو سراہنا چاہیے، کوئی جواب نہیں ہو گا تو ججز بے خوف نہیں ہوں گے، ہمیں اس نکتے کو دیکھنا چاہیے جو ہائیکورٹ کے ججز اٹھا رہے ہیں، انہوں نے منصور اعوان کو ہدایت دی کہ آپ جسٹس اعجاز کا نوٹ پڑھیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں ہائیکورٹس کی تجاویز تک ہی محدود رہنا چاہیے ہر کسی کی بھیجی گئی چیزوں پر نہیں۔جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل ججز کو سراہنے کے لیے اسے آن ریکارڈ پڑھ دیں۔بعد ازاں چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے بتایا کہ میں جب سے چیف جسٹس بنا ایک بھی مداخلت کا معاملہ میرے پاس نہیں آیا، ہم کسی صورت عدلیہ میں مداخلت نہیں کرنے دیں گے، جو ماضی میں ہوا سو ہوا اب ہمیں آگے بڑھنا ہو گا، ماتحت عدلیہ بارز کے صدور ججز کے چیمبر میں بیٹھتے ہیں، کیا یہ مداخلت نہیں؟اس موقع پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ایک جج کی ذاتی معلومات سوشل میڈیا پر افشاں کی گئیں، ایک جج کے گرین کارڈ کا ایشو اٹھایا گیا۔اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہائیکورٹ کے ججز کو چھوڑیں ہمارے ساتھ جو ہو رہا ہے اس کا کیا؟ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ 2018میں ہمارے اوپر تنقید ہوتی رہی لیکن ہم نے کبھی اس پر کچھ نہیں کہا، ججز کا ڈیٹا جو کہ حکومتی اداروں نادرا اور امیگریشن ڈیپارٹمنٹ کے پاس ہے وہ لیک ہو تو یہ درست نہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ جج کو یہ کہنا کہ تمہارا بچہ کہاں پڑھتا ہے یہ صرف ایگزیکٹو کر سکتی ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے بتایا کہ بینچ کے دو ممبران کو ٹارگٹ کیا گیا، ہم نے نوٹس لیا کہ ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے، فیصلہ ایک نہیں دس دے دیں کیا ہو گا؟ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آج اس مسئلے کو حل نہ کیا تو بہت نقصان ہوگا۔جسٹس مسرت حلالی نے ریمارکس دیے کہ یہ جو تجاویز دی گئی ہیں یہ سب ہائی کورٹ خود کیوں نہیں کرتے، سپریم کورٹ سے اجازت کیوں لے رہے ہیں؟جسٹس منصور علی شاہ نے بتایا کہ مسائل اندرونی ہوں یا بیرونی آج موقع ہے حل کریں، ہائی کورٹس کے پاس تمام اختیارات تھے، توہین عدالت کا بھی اختیار تھا، ایک نظام بنانا ہے اور ملک کی ہر عدالت کو مضبوط کرنا ہے، ڈسٹرکٹ جوڈیشری نے تجاویز لکھتے وقت بڑی جرات دکھائی ہے، یہ اس مقدمے اور اس سوموٹو کیس کے ثمرات ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ کیا ہورہا ہے فون رکھ کر بات کرو یہ کس قسم کا کلچر ہے؟ مجھے کوئی دیکھ رہا ہے مجھے کوئی نوٹ کر رہا ہے اس کمرے میں ڈیوائس لگی ہے یہ کیوں ہوتا ہے، کیا ایسا ہونا چاہیے ؟ کیا ایک جمہوری ملک میں ایسا کلچر ہونا چاہیے؟

جسٹس مسرت حلالی نے کہا کہ جو جج دباﺅ برداشت نہیں کر سکتا اسے کرسی چھوڑ دینی چاہیے، چیف جسٹس نے بتایا کہ میں 5 سال ایک ماہ بلوچستان ہائی کورٹ کا چیف جسٹس رہا، معلوم ہے کتنی مداخلت ہوتی ہے، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ میں اسلام آباد ہائی کورٹ کا چیف جسٹس رہا ہوں کبھی میرے یا کسی اور جج کے کام میں مداخلت نہیں کی گئی۔جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ میرے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے دوران کبھی مداخلت نہیں ہوئی۔بعد ازاں جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ انٹیلیجنس ایجنسیاں وزیراعظم کے ماتحت ہوتی ہیں، انٹیلی جنس ادارے کچھ کرتے ہیں تو اس کے ذمہ دار وزیر اعظم اور ان کی کابینہ ہے، آئین دیکھ لیں کچھ بھی آزادانہ نہیں ہوتا، ہمیں اپنی آرمڈ فورسز کی ساکھ بھی برقرار رکھنی ہے، یہ ہماری ہی مسلح افواج ہے، ملک کے محافظ ہیں، یہ ہمارے سپاہی ہیں جو ملک کا دفاع کرتے ہیں۔چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ فیض آباد دھرنا فیصلے کے خلاف کس کس نے نظر ثانی درخواستیں دائر کی؟ اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ اندرونی مداخلت کیسے ہوتی ہیں، چار سال سے زائد عرصے تک نظر ثانی درخواست سماعت کے لیے مقرر ہی نہیں ہوئی، کوئی وضاحت ہے کہ کیوں تقریبا پانچ سال سماعت کے لیے مقرر نہیں ہوئی؟ کیا اس کے لیے بھی ایگزیکٹو ذمہ دار ہے؟ یہاں پارلیمنٹ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، دنیا کو کیا نہیں پتہ تھا کہ اس وقت پاکستان کو چلا کون رہا تھا؟ مگر شاید آپ لوگوں نے انہیں بچانا تھا یا شاید نہیں۔

انہوں نے کہا کہ میری ذات پر انگلی نا اٹھائیں، میں نے لکھ کر دیا تھا کہ جنرل فیض حمید اس کے پیچھے تھے، یہ معاملہ اس وقت کی حکومت پر چھوڑ دیا گیا، میری اہلیہ نے بھی پولیس اسٹیشن میں اپنا بیان ریکارڈ کروایا تھا ، جب لوگ پٹری سے ہٹ جائیں تو پھر قانون سازی کی ضرورت پڑ جاتی ہے، حکومت آخر کب قانون سازی کرے گی؟چیف جسٹس پاکستان نے بتایا کہ جب تک پارلیمان مضبوط نہیں ہوگی دوسری طاقتیں مضبوط بنتی جائیں گی۔جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ انٹیلی جنس ایجنسی ادارے کس قانون کے تحت وجود میں آئے ہیں اور اگر مداخلت کرتے ہیں تو ان کے خلاف کیا ایکشن لیا جا سکتا ہے؟جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آپ نے پچھلی سماعت پر کہا کہ 2017-18میں سیاسی انجینئرنگ ہو رہی تھی، اس وقت حکومت میں کون تھا؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اس وقت مسلم لیگ (ن)کی حکومت تھی۔جسٹس اطہر من اللہ نے دریافت کیا کہ آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ وہ حکومت بے بس تھی؟چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ بیوروکریسی کو بھی فون آتے ہیں کچھ کام کر دیتے ہیں کچھ نہیں کرتے، جو نہیں کرتے او ایس ڈی بنا دیے جاتے ہیں۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ دبا ﺅکبھی بھی نہیں ہو گا اگر عدلیہ اپنے دروازے نہ کھولے، جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ جو دروازے کھولتے ہیں ان کے خلاف مس کنڈکٹ کا کیس ہونا چاہیے، سب جج چیف جسٹس کی طرح جرات مند نہیں، کچھ میرے جیسے بھی ہوتے ہیں، جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ جب کوئی جج بولتا ہے اس کے خلاف بدنام کرنے کی مہم چلائی جاتی ہے، جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا اتنا بڑا فیصلہ آیا حکومت نے کیا کیا؟اس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اس میں کئی سابق ججز بھی ملوث ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جو بھی ملوث ہو اگر سابق چیف جسٹس بھی ملوث ہیں ان کے خلاف بھی ایکشن لیں، جب کوئی جج سچ بولتا ہے تو اس کے خلاف ریفرنس دائر ہو جاتے ہیں، چیف جسٹس نے بتایا کہ وہ ریفرنس ہمارے پاس ہی آتے ہیں، ہمارے پاس میکانزم ہے، ہمیں اپنی اتنی بری تصویر پیش نہیں کرنی چاہیے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے مزید بتایا کہ آپ نے تین ہائی کورٹس کی تجاویز پڑھیں، کسی نے نہیں کہا کہ مداخلت نہیں ہو رہی، اس کا مطلب ہے کہ مداخلت ہو رہی ہے۔جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ کسی ہائی کورٹ نے یہ بھی نہیں کہا کہ مداخلت کا مسئلہ ہم خود حل کر لیں گے، ہمیں ایک نظام بنانا ہو گا جس سے مداخلت کا دروازہ بند ہو جائے۔بعد ازاں چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو سپریم جوڈیشل کونسل کے ذکر سے روک دیا،چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل الگ فورم ہے اسے تجاویز دینی ہیں تو الگ دیں، جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ہم یہاں انتظامی نہیں جوڈیشل سائیڈ پر بیٹھے ہیں کوئی بھی آرڈر پاس کر سکتے ہیں،جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ہم کونسل کےفیصلوں کو ختم بھی کرتے ہیں ان میں ترمیم بھی کرتے ہیں، ہم اہم معاملے پر ایگزیکٹو کو ایڈوائس دے سکتے ہیں,جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہم اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے ہی سب کریں گے۔عدالت میں اکبر الہ آبادی کے شعر کا حوالہ دیا گیا کہ ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام۔اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے دلچسپ تبصرہ کیا کہ یہی بابر ستار کے ساتھ ہو رہا ہے، سوشل میڈیا پہ پتہ نہیں کیا کیا لکھا جا رہا ہے لوگ فریق بنے ہوئے ہیں، یہ لوگ پارٹی کیوں بن جاتے ہیں؟چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ کچھ لوگ خاموشی سے عدلیہ کی آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے، وہ اب ختم ہو چکے ہیں، ججز کی تعیناتی کے لیے جب ہم خفیہ اداروں سے رپورٹیں منگواتے ہیں تو ہم ان کو مداخلت کا موقع دیتے ہیں۔ جب آپ مانیٹرنگ جج لگوائیں گے، جب جے آئی ٹیز میں ان کو شامل کریں گے تو ان کو مداخلت کا موقع ملے گا، کچھ لوگ ذاتی مفادات کے لیے آئینی مفادات کو پس پشت ڈالتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ کچھ لوگ ایک خاص وقت میں ایک مقام پر کھڑے تھے، آج ایک دوسرے مقام پر کھڑے ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب میرے دو سوال ہی ، لاسٹ ٹائم آپ نے وزیر اعظم اور چیف جسٹس سے ملاقات کے بعد پریس کانفرنس کی، پریس کانفرنس میں کہا کہ 6ججز نے مس کنڈکٹ کیا، اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اگر پریس کانفرنس میں اگر چھ ججز کے خط کو مس کنڈکٹ کہا گیا تو غلط تھا۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ پشاور ہائی کورٹ کا جواب سب سے سنجیدہ ہے، وہ تو کہتے ہیں کہ ہمیں جان سے مار دینے کی دھمکیاں آتی ہیں۔واضح رہے کہ پاکستان بار کونسل کے 6 اراکین کی جانب سے دائر ایک درخواست بطور فریق شامل ہونے سے متعلق ہے، جس میں ہائی کورٹ کے ججز کے خط میں لگائے گئے الزامات کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا گیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں