لاہور(نمائندہ خصوصی)وفاقی قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے احکامات جاری کر دئیے ہیں کہ وکلاء پر دہشتگردی کی دفعات کے تحت مقدمات درج نہیںہوں گے ، وکلاء کو بھی اپنی خود احتسابی کرنا ہو گی اور مجھے یقین ہے کہ تمام بارز اپنی ڈسپلنری کمیٹی کو مکمل فعال کریں گی ، ہم آئین و قانون کی بات کرتے ہیں ،آئین کی بالا دستی کی بات کرتے ہیں
وہ سب کے لئے ہونی چاہیے ، وکالت انتہائی نوبل اور معزز پیشہ ہے اس پیشے نے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کردار ادا کیا ہے ، ہم آئین و قانون کے پاسدار اور رکھوالے ہیں ، ہم نے جیلیں کاٹی ہیں صعوبتیں برداشت کی ہیں لیکن ہم نے جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیا ،ہم اس عزم کے ساتھ کھڑے ہیں کہ ہم اس ملک میں جمہوری عمل کو نہیں رکنے دیںگے، اگر کوئی خلل آئے گا تو اس کی مزاحمت کریں گے ،پنجاب کی تاریخ میں وکلاء کی فلاح و بہبود اور بارز کی کیپسٹی بلڈنگ کے لئے کبھی اتنا بڑے حجم کا پیکج نہیں آیا جو موجودہ پنجاب حکومت کی جانب سے دیا گیا ہے
ہمارا دیرینہ مطالبہ تھاکہ بارز کے لئے رقم کو سالانہ بجٹ میں مختص کیا جانا چاہیے اور وزیر اعلیٰ پنجاب نے وکلاء کا حق تسلیم کرتے ہوئے ایک ارب روپے کی رقم آئندہ مالی سال کے بجٹ میں مختص کر دی ہے جبکہ وفاقی حکومت کا بجٹ اس کے علاوہ ہے ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے پنجاب بار کونسل میں مختلف بارز میں چیک تقسیم کرنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ یہ رقم پنجاب بار ایسوسی ایشن اور دیگر بارز کے منصوبوں پر خرچ ہو گی، اس کے علاوہ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے اعلان کیا ہے کہ خواتین وکلاء کو بھی بہترین سہولتیں دیں گے اور ان کے لئے بارز میں ڈے کیئر سنٹرز بنائے جائیں گے ۔
انصاف کے حصول کیلئے آنے والے مرد و خواتین سائلین کے لئے اضلاع اور تحصیلوں میں کیفے ٹیریا ز،ویٹنگ رومز اور ٹوائلٹس بناکر دیں گے ،ان معاملات کے لئے صوبائی وزیر قانون صہیب بھرت اور وزیر اعلیٰ آفس سے ایک ایڈیشنل سیکرٹری کو فوکل پرسن مقرر کیا گیا ہے ۔
انہوں نے اٹک میں دو وکلاء کی شہادت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب حکومت نے اس سلسلہ میں فوری کارروائی کے احکامات جاری کئے ہیں اور یقین دہانی کرائی کہ اس مقدمے کی پراسیکیوشن میں کوئی کوتاہی نہیں بھرتی جائے گی ،مقدمے کی پراسیکیوشن سے آگاہی کے لئے سینئر وکلاء پر مشتمل ایک کمیٹی بھی بنا دی گئی ہے ، مقدمے میں دہشتگردی کی دفعات لگا دی گئی ہیں ۔ میری اس سلسلہ میں وزیر اعظم سے بھی بات ہوئی ہے اور انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ جو بھی سپورٹ چاہیے ہو گی وفاقی حکومت فراہم کرے گی جبکہ پنجاب حکومت نے بھی اسی طرز کی یقین دہانی کرائی ہے ۔
لائرز پروٹیکشن ایکٹ کے تحت شہید ہونے والے وکلاء کے اہل خانہ کو شہداء پیکج کے تحت ریلیف دیا جائے گا ،انہوں نے بارز کے ذمہ داران کو تجویز پیش کی کہ وہ بارز کی سطح پر بھی گروپ انشورنس کا نظام وضع کریں جس میں اس طرح کے حادثات کے متاثرہ خاندانوں کی مدد کی جا سکے ۔انہوںنے مزید کہا کہ میں تمام بارز میں بھی جانا چاہتا تھا لیکن جس طرح کے حالات اورمعاملات چل رہے ہیں وہ سب کے سامنے ہیں ۔ ہم آئین و قانون کی بات کرتے ہیں ،آئین کی بالا دستی کی بات کرتے ہیں وہ سب کے لئے ہونی چاہیے ، وہ حکومت اور عدلیہ کے لئے بھی ہونی چاہیے ، عدلیہ اپنی حدود سے باہر جائے گی تو آپ ہی لوگ ہیں جو چیک کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ دنوں لاہور بار کے وکلاء اور ہماری سینئر لیڈر شپ کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ قابل افسوس ہے ،نہتے وکلاء پر تشدد کیا گیا ، لاہور ہائیکورٹ کی طرف سے حکما ًکہا گیا کہ دروازے بند کر دیں اورکوئی وکیل داخل نہیں ہوگا ایسا تو مارشل لاء کے دور میں بھی نہیں ہوا، وکلاء کے لئے تین نومبر کے بعد لاہور ہائیکورٹ بار کے دروازے بند نہیں ہوئے تھے ۔
انہوںنے کہا کہ اس سلسلہ میں میرا وزیر اعلیٰ پنجاب سے رابطہ ہوا تھا اور اس وقت تک جو گرفتاریاں ہو چکی تھیں ان کی فوری رہائی کے احکامات جاری کئے گئے ، اس دن میں بھی یہی خواہش تھی کہ وکلاء پر دہشتگردی کی دفعات کے تحت مقدمات درج ہوں ۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے ہدایت کی ہے وکلاء جو اپنے مطالبات کے لئے احتجاجی جلوس نکالتے ہیں اگر کسی وجہ سے جو مقدمات درج ہوتے ہیں ان میں جو دہشتگردی کی دفعات کے تحت مقدمات ہوتے ہیں وہ سلسلہ بند کر دیا گیا ہے ۔
وکلاء بھائیوں پر جو ریاستی جبر تھا انسداد دہشتگردی کے مقدمات ہوتے تھے اب وہ نہیں ہوں گے ۔انہوں نے کہا کہ میں تمام بارز سے مخاطب ہوں کہ جو ہمارے ذاتی معاملات ہیں میں توقع رکھتا ہوں ہم اپنی خود احتسابی بھی کریں گے ، اپنی ڈسپلنری کمیٹیوں کو فعال کریں ۔
جب کیل نے کالا کوٹ پہن لیا تو اس نے بار کونسل کے تحت یہ حلف لے لیا کہ وہ صرف اور صرف آئین و قانون کے تحت کام کرے گا، ہمیں زیب نہیں دیتا ہم توڑ پھوڑ میں شریک ہوں،تالہ بندی کا حصہ یا انصاف کی فراہمی کی راہ میں رکاوٹیں بنیں ۔جو آپ کے جائز مطالبات ہیں ان کے لئے ضرور احتجاج کریں ۔
بار ایسوسی ایشنز کی قیادت اپنے اپنے اضلاع اورتحصیلوں میں جائیں اورخود احتسابی گھر سے شروع کریں ۔ہمیں یہ بر ملا اعلان کرنا ہے کہ اگر بار کا کوئی ممبر غلطی کرتا ہے اگر اس نے جرم کیا ہے تو ہم خود مدعی بن کر بار میں ریفرنس میں بھیجیں گے، اگر اس نے کوئی قابل دست اندازی اقدام کیا ہے تو ہم ریاست کے ساتھ مل کر پراسیکیوشن کریں گے ، اب یہ وقت آ چکا ہے ہمیںیہ کرنا چاہیے یہ ہم سب کے بھلے کی باتیں ہیں۔
انہوںنے کہا کہ وکالت انتہائی نوبل اور معزز پیشہ ہے اس پیشے نے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کردار ادا کیا ہے ، ہم آئین و قانون کے پاسدار اور رکھوالے ہیں ، ہم نے جیلیں کاٹی ہیں صعوبتیں برداشت کی ہیں لیکن ہم نے جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیا ،ہم اس عزم کے ساتھ کھڑے ہیں کہ ہم اس ملک میں جمہوری عمل کو نہیں رکنے دیںگے، اگر کوئی خلل آئے گا تو اس کی مزاحمت کریں گے ،اس کے لئے ہمیں اپنی صفوں میں اتحاد کو بر قرار رکھنا ہے ، ہم نے اپنی خود احتسابی کا عمل جاری رکھنا ہے ۔