سپریم کورٹ

پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم، سپریم کورٹ کا مخصوص نشستیں پاکستان تحریک انصاف کو دینے کا حکم

اسلام آباد (نمائندہ خصوصی ) سپریم کورٹ آف پاکستان نے پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ اور الیکشن کمیشن کا حکم کالعدم قرار دیتے ہوئے مخصوص نشستیں پاکستان تحریک انصاف کو دینے کا حکم دے دیا،عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ انتخابی نشان واپس لینا سیاسی جماعت کو انتخابات سے باہر نہیں کر سکتا، پی ٹی آئی مخصوص نشستوں کے حصول کی حقدار ہے، پی ٹی آئی سیاسی جماعت تھی اور ہے، پی ٹی آئی اس فیصلے کے 15روز میں اپنے مخصوص افراد کی نشستوں کے نام کی فہرست دے سکتی ہے، سنی اتحاد کونسل آئین کے مطابق مخصوص نشستیں نہیں لے سکتی، پی ٹی آئی بطور سیاسی جماعت قانون اور آئین پر پورا اترتی ،پی ٹی آئی امیدواروں کو کسی اور جماعت کا یا آزاد امیدوار قرار نہیں دیا جا سکتا ۔

جمعہ کو سپریم کورٹ کے کمرہ نمبر ایک میں الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر، اٹارنی جنرل منصور اعوان اور پی ٹی آئی رہنماں کی موجودگی میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے حوالے سے کیس کا فیصلہ سنایا دیا گیا۔ جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحیی آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید، جسٹس عرفان سعادت خان اور جسٹس نعیم اختر افغان فل کورٹ کا حصہ تھے ۔ چیف جسٹس پاکستان نے بتایا کہ سنی اتحاد کونسل کی درخواست پر فیصلہ 8 کی اکثریت کا فیصلہ ہے، فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے بتایا کہ فیصلہ 5-8 کے تناسب سے ہے۔ سپریم کورٹ کے کمرہ نمبر ایک میں الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر، اٹارنی جنرل منصور اعوان اور پی ٹی آئی رہنماں کی موجودگی میں فیصلہ سنایا گیا۔

جسٹس منصور علی شاہ،جسٹس شاہد وحید،جسٹس عائشہ ملک، جسٹس عرفان سعادت،جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس منیب اختر ،جسٹس حسن اظہر رضوی اورجسٹس محمد علی مظہر نے اکثریت میں فیصلہ دیا۔ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس نعیم افغان، جسٹس امین الدین خان نے درخواستوں کی مخالفت کی جبکہ جسٹس یحی آفریدی نے اختلافی نوٹ تحریر کیا۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ انتخابی نشان واپس لینا سیاسی جماعت کو انتخابات سے باہر نہیں کر سکتا، پی ٹی آئی مخصوص نشستوں کے حصول کی حقدار ہے، پی ٹی آئی سیاسی جماعت تھی اور ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے فیصلہ سناتے ہوئے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق الیکشن کمیشن اور پشاور ہائیکورٹ کے فیصلوں کو کالعدم قرار دیا اور کہا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ آئین کے خلاف ہے، انتخابی نشان کا نا ملنا کسی سیاسی جماعت کو انتخابات سے نہیں روکتا، پاکستان تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت تھی اور ہے۔

سپریم کورٹ نے خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ پنجاب،خیبرپختونخوا او ر سندھ میں مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دے دی جائیں۔ سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کو پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں بطور سیاسی جماعت قرار دے دیا اور سنی اتحاد کونسل کی اپیلیں مسترد کر دیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی اس فیصلے کے 15روز میں اپنے مخصوص افراد کی نشستوں کے نام کی فہرست دے سکتی ہے، باقی 41 امیدوار بھی 15 دن میں سرٹیفکیٹ دے سکتے ہیں کہ وہ اسی جماعت کے امیدوار تھے۔

فیصلے کے مطابق الیکشن کمیشن نے 80 امیدواروں کا ڈیٹا جمع کروایا، انتخابی نشان ختم ہونے سے کسی جماعت کا الیکشن میں حصہ لینے کاحق ختم نہیں ہوتا، انتخابی نشان کا نہ ملنا کسی سیاسی جماعت کو انتخابات سے نہیں روکتا۔عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سنی اتحاد کونسل آئین کے مطابق مخصوص نشستیں نہیں لے سکتی، پی ٹی آئی بطور سیاسی جماعت قانون اور آئین پر پورا اترتی ہے۔ فیصلے میں مزید کہا گیا کہ پی ٹی آئی بحیثیت جماعت مخصوص نشستیں حاصل کرنے کی قانونی و آئینی حقدار ہے، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے منتخب ارکان پی ٹی آئی کا حلف نامہ دیں، جن امیدواروں نے سرٹیفکیٹ دیا کہ وہ پی ٹی آئی سے ہیں وہ ایسا ہی رہے گا، پی ٹی آئی کے منتخب امیدواروں کو کسی اور جماعت کا یا آزاد امیدوار قرار نہیں دیا جا سکتا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے ارکان کو نکال کر فیصلہ دیا، اس بنیاد پر پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے، الیکشن کمیشن نے غلط طور پر پی ٹی آئی امیدواروں کو آزاد ڈکلیئر کیا، پی ٹی آئی نے آزاد قرار دیئے جانے کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو چیلنج ہی نہیں کیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا الیکشن کمیشن نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی، الیکشن کمیشن دوبارہ مخصوص نشستوں کی تقسیم کرے، اب پی ٹی آئی کے منتخب ارکان یا خود کو آزاد یا پی ٹی آئی ڈکلیئر کریں، پی ٹی آئی ارکان پر کسی قسم کا دباو نہیں ہونا چاہیے۔

یاد رہے 28فروری 2024کو چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے متفقہ تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے قرار دیا تھا کہ سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں، 4 ممبران نے نشستیں دیگر سیاسی جماعتوں کو دینے کا فیصلہ دیا تاہم ممبر پنجاب بابر حسن بھروانہ نے اختلافی نوٹ میں کہا کہ آرٹیکل 51اور 106میں ترمیم تک نشستیں دیگر سیاسی جماعتوں میں بانٹے کے بجائے خالی رکھی جائیں۔ سنی اتحاد کونسل نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو پشاورہائیکورٹ میں چیلنج کیا۔ مارچ میں پشاور ہائیکورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے سنی اتحاد کونسل کی اپیل خارج کردی۔

بعد ازاں مئی میں معاملہ سپریم کورٹ پہنچا جہاں جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس محمد علی مظہر پر مشتمل 3 رکنی بنچ نے 6مئی2024کو پہلی سماعت میں ہی پشاور ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن کے فیصلے کو معطل کردیا۔ سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے آئینی و قانونی تشریح کے سوالات مرتب کرتے ہوئے لارجر بینچ کی تشکیل کیلیے معاملہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو بھجوا دیا۔ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی ،جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل کمیٹی اجلاس میں اکثریتی فیصلے سے فل کورٹ تشکیل دینے کا فیصلہ ہوا اور پھر 13 رکنی فل کورٹ نے 6طویل سماعتوں کے بعد 9جولائی کو سماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کر لیا۔ یہ بھی یاد رہے کہ اہم بات یہ ہے کہ ماضی میں ایسے کئی اہم فیصلوں کی مثالیں موجود ہیں جو جمعے کے روز جاری ہوئے۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کا فیصلہ 20جولائی 2007 بروز جمعہ سپریم کورٹ نے سنایا گیا تھا۔اسی طرح سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو پاناما کیس میں خیالی تنخواہ پر نااہل کرنے کا فیصلہ بھی 28جولائی 2017جمعہ کے روز ہی سنایا گیا تھا جب کہ غیر ملکی جائیداد یں بنانے کے الزام میں بانی پی ٹی آئی کو کلین چٹ اور جہانگیر خان کو نااہل قرار دینے کا فیصلہ بھی 15دسمبر 2017کو جمعہ کے روز ہی سنایا گیا تھا ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں