شاہ محمود قریشی

ہم طالبان کے اعلانات کو مثبت وحوصلہ افزا سمجھتے ہیں،مرحلے پر افغان عوام کو تنہا نہ چھوڑا جائے،پاکستان

اسلام آباد (گلف آن لائن) وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہاہے کہ ہم طالبان کے اعلانات کو مثبت وحوصلہ افزا سمجھتے ہیں،مرحلے پر افغان عوام کو تنہا نہ چھوڑا جائے،پاکستان ‘سہولت کار’ کا اپنا کردار جاری رکھے گا تاہم ہمارے کردار کو ضامن کے طورپر غلط انداز میں محمول نہ کیاجائے،افغان قیادت کو افغان عوام کے مطالبات کو پورا کرنے، اختلافات کو مفاہمت میں ڈھالنے اور مذاکرات کے ذریعے سیاسی تصفیہ کے حصول کے دیرینہ ہدف کی ذمہ داری کو قبول کرنا چاہیے، سید علی گیلانی کے انتقال پر پوری قوم غمزدہ ہے ۔

وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے چھٹے تھنک ٹینک فورم سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ سب سے پہلے میں سید علی گیلانی کے انتقال پر اپنے دکھ اور افسوس کا اظہار کرنا چاہتا ہوں ،سید علی گیلانی کے انتقال پر پوری قوم غمزدہ ہے،مجھے دکھ ہے کہ جس طرح ہندوستانی فورسز نے کل رات ان کے گھر کا گھیراؤ کیا وہ انتہائی افسوس ناک ہے ،بھارت ان کے نمازجنازہ سے بھی خوفزدہ ہے ۔ انہوںنے کہاکہ میں گزشتہ روز سے شدید اضطراب میں ہوں،ہر کشمیری اور ہر پاکستانی کے یہی جذبات ہیں ،وہ آج ہم میں موجود نہیں ہیں لیکن ان کی خوشبو ان کے راہنما اصولوں کے باعث ہمیشہ تروتازہ رہے گی اور دنیا بھر کے کشمیریوں کیلئے مشعل راہ ثابت ہو گی۔ انہوںنے کہاکہ ایک اہم موضوع پر اجلاس منعقد کرنے پر میں منتظمین کو مبارک پیش کرتا ہوں۔ انہوںنے کہاکہ ہم اپنے ہمسائے میں اہم واقعات رونما ہوتے دیکھ رہیں جن کے خطے اور اجتماعی برادری کے لئے بحیثیت مجموعی دور رس مضمرات ہیں۔ انہوںنے کہاکہ حالات ایک نہایت باریک بینی اور احتیاط سے مرتب کردہ پالیسی کے متقاضی ہیں تاکہ مسائل سے بچا جاسکے اور وہ مقصد حاصل ہوسکے جس کے لئے ہم گزشتہ کئی برس سے محوجستجو ہیں یعنی ایک پرامن اور خوش حال افغانستان کا قیام۔

انہوںنے کہاکہ اس سے قبل کہ میں افغانستان پر ہماری پالیسی کے نمایاں نکات کواجاگر کروں، حالیہ صورتحال پر چندگزارشات سے آپ کو ہماری پالیسی سے متعلق بنیادی تصور واضح ہوجائے گا۔ انہوںنے کہاکہ دو دہائیوں میں عالمی اتحاد نے فوجی انداز فکر اپناتے ہوئے افغانستان میں امن کے حصول کی کوشش کی جو میری دانست میں زمینی حقائق پر مبنی نہیں تھا۔ انہوںنے کہاکہ فوجی حل پر اصرار کے نتیجے میں سیاسی عمل کی راہ میں رکاوٹیں حائل رہیں۔ انہوںنے کہاکہ دوہا امن معاہدہ افغانستان کے قائدین کے لئے ایک نئی امید لایا ،بدقسمتی سے بین الافغان مذاکرات میں نہایت کم پیش رفت ہوئی۔ انہوںنے کہاکہ غیریقینی کی صورتحال میں مزید پیچیدگی 31 اگست 2021 کو افواج کے انخلاء کے اچانک امریکی اعلان سے پیدا ہوئی۔

انہوںنے کہاکہ افغان قیادت میں افغانوں کو قبول مذاکرات کے ذریعے سیاسی تصفیہ کی غیرموجودگی میں بین الاقوامی افواج کے انخلاء نے افغان قیادت کے لئے اپنی نوعیت کے نئے مسائل و مشکلات اور امکانات پیدا کردئیے۔ انہوںنے کہاکہ افغان سکیورٹی فورسز کی طرف سے مزاحمت کے فقدان اور طالبان کے کابل کے تیزی سے ٹیک اوور نے عالمی برادری کو حیران کردیا۔ انہوںنے کہاکہ بظاہر خانہ جنگی کا امکان ٹل گیا ہے۔ انہوکںنے نکہاکہ ٹیک اوور کے بعد سے طالبان نے عام معافی، خواتین کے حقوق کے تحفظ، اظہاررائے کی آزادی، روزگار اور تعلیم کی فراہمی اور اجتماعیت کے حامل سیاسی نظام کے لئے کشادگی کے متعدد اعلانات کئے ہیں۔انہوںنے کہاکہ طالبان مستقبل کے سیاسی نظام سے متعلق افغان رہنماوں سے بات چیت کررہے ہیں تاہم آج کے دن تک صورتحال نازک ہے۔انہوںنے کہا کہ کابل ہوائی اڈے کے قریب ‘داعش’ کے دو حملوں میں 170 سے زائد جانوں کا بدقسمتی سے ضیاع ہوا جو نازک صورتحال کی افسوسناک یاددہانی ہے۔ انہوںنے کہاکہ یہ صورتحال زیادہ متقاضی ہے کہ افغان قائدین دانائی کا مظاہرہ کریں۔

انہوںنے کہاکہ یہ صورتحال اس امر کی بھی متقاضی ہے کہ عالمی برادری ایک اجتماعی ذمہ داری کے طورپر اپنے رابطے جاری رکھتے ہوئے امن، استحکام اور خوشحالی کی راہ پر افغانستان کی مدد کرے۔النہوںنے کہاکہ ناکامی کوئی آپشن نہیں ہے،پاکستان واحد ملک تھا جس نے ہمیشہ یہی کہا کہ افغان تنازعہ کا کوئی فوجی حل نہیں۔ انہوںنے کہاکہ مذاکرات کے ذریعے سیاسی حل پر اپنے پختہ یقین کے ساتھ پاکستان نے امریکہ اور طالبان میں براہ بات چیت کی حمایت کی جس سے بین الافغان مذاکرات کی راہ ہموار ہوئی۔ انہوںنے کہاکہ ہم آواز بلند کرتے رہے کہ بین الاقوامی افواج میں انخلاء بین الافغان مذاکرات میں پیش رفت کی مناسبت اور مطابقت سے ہونا چاہیے ۔ انہوںنے کہاکہ ہم نے عبوری دورانیہ کو خوش اسلوبی سے یقینی بنانے کی خاطر ذمہ دارانہ اور منظم انداز میں افواج کے انخلاء کی بھی حمایت کی۔ انہوںنے کہاکہ جانی نقصانات اور معیشت دونوں لحاظ سے افغانستان کے بعد سب سے زیادہ ہم متاثر ہوئے ہیں۔

انہوںنے کہاکہ افغانستان میں امن واستحکام میں پاکستان سے زیادہ کسی اور ملک کا مفاد نہیں۔ انہوںنے کہاکہ افغانستان میں تنازعہ اور عدم استحکام کا جاری رہنا یقینی طورپر ہمارے مفاد میں نہیں۔انہوںنے کہاکہ افغانستان کی مجموعی تعمیر میں افغان معاشرے کے تمام طبقات کو ہم نہایت اہم سمجھتے ہیں۔وزیر خارجہ نے کہاکہ ہر افغان خواہ وہ تاجک برادری سے ہو، ازبک یا ترکمن یا پشتون ہو، یہ سب مجموعی طور پر اس خوبصورت گلدستے کا حصہ ہیں۔انہوںنے کہا کہ ہم نے تمام نسلی برادریوں کے ساتھ رابطہ کیا ہے تاکہ متحدہ اور پرامن افغانستان کے لئے اپنی حمایت کا اعادہ کرسکیں۔ انہوںنے کہاکہ موجودہ حالات میں ہم افغانستان میں اجتماعیت کے حامل نظام کے لئے حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں کیونکہ یہی آگے بڑھنے کا واحد بہتر راستہ ہے۔ انہوںنے کہاکہ ہم طالبان کے اعلانات کو مثبت وحوصلہ افزا سمجھتے ہیں۔ انہوںنے کہاک ہافغان قیادت کو افغان عوام کے مطالبات کو پورا کرنے، اختلافات کو مفاہمت میں ڈھالنے اور مذاکرات کے ذریعے سیاسی تصفیہ کے حصول کے دیرینہ ہدف کی ذمہ داری کو قبول کرنا چاہیے۔انہوںنے کہاکہ اجتماعیت کا حامل نظام طالبان کے لئے اہم ہے تاکہ وہ عوام کا اعتماد اور عالمی برادری کی طرف سے قبولیت حاصل کرسکیں۔ انہوںنے کہاکہ اس سے علاقائی اور عالمی سطح پر تعاون کے نئے امکانات پیدا ہوں گے۔

انہوںنے کہاکہ اس سے خطے کے لئے ہمارے مشترکہ اہداف کو تعبیر دینے میں مدد ملے گی جس میں دہشت گردی کے عفریت سے نجات اور رابطوں میں جوڑنے کے منصوبوں کے جال کے ذریعے عالمی برادری سے مضبوط رابطوں کی استواری شامل ہے۔ انہوںنے کہاکہ جیو اکنامکس پر ہماری ازسرنو مرکوز کردہ توجہ کے پیش نظر ہم محسوس کرتے ہیں کہ ‘خطے’ کے جْڑنے کے ثمرات اس وقت تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتے جب تک افغانستان میں پائیدار امن قائم نہیں ہوتا،اس مقصد کے حصول کے لئے عالمی برادری کے لئے نہایت اہم ہے کہ افغانستان سے روابط استوار رکھے۔ انہوںنے کہاکہ ہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت سب سے بڑا موقع افغانستان میں پائیدار امن واستحکام کے لئے یکجا ہونے کی صورت موجود ہے۔ انہوںنے کہاکہ مستقل رابطوں سے مستحکم ٹرانزیشن یقینی ہوگا اور 1990 کو دوہرائے جانے سے بچا جاسکے گا،اس نازک مرحلے پر افغان عوام کو تنہا نہ چھوڑا جائے۔

انہوںنے کہاکہ پاکستان ‘سہولت کار’ کا اپنا کردار جاری رکھے گا تاہم ہمارے کردار کو ضامن کے طورپر غلط انداز میں محمول نہ کیاجائے۔ انہوںنے کہاکہ افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے میرے حالیہ دوروں کے بارے میں آپ کو عرض کرتا چلوں۔ انہوںنے کہاکہ میں نے تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان اور ایران کے دورے کئے جہاں میں نے ان ممالک کی قیادت سے، ہماری مشترکہ تشویش اور علاقائی انداز فکر اپنانے کی ضرورت پر تفصیلی بات کی۔ انہوںنے کہاکہ میری گفتگو کا محور و مرکز تین نکات پر رہا۔ انہوںنے کہاکہ افغان تنازعے کے سیاسی حل میں سہولت اور اجتماعیت کے حامل سیاسی حل کے حصول میں مدد ،سلامتی، انسداد دہشت گردی اور سرحدی انتظام کے شعبوں میں ہمسایہ ممالک میں تعاون کو تیز کرنا تاکہ سمگلنگ، ہیومن ٹریفکنگ اور مہاجرین کے بہائوجیسے مسائل سے نمٹا جاسکے۔ انہوںنے کہاکہ افغانستان اور وسط ایشیاء کے ذریعے علاقائی تجارت، ٹرانزٹ، انفراسٹرکچر، توانائی راہداری، کاروباری روابط اور عوامی رابطوں کو فروغ دیاجائے، جوہماری جیواکنامکس پالیسی کا مظہر ہے۔

انہوںنے کہاکہ سب کے خیالات سے مجھے یہ معلوم ہوا کہ افغانستان کے ہمسائے ہماری تشویش میں مکمل شریک ہیں۔ ہم آنے والے دنوں میں اپنے علاقائی انداز فکر کے لئے کاوشوں کو مزید تیز کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جس کے تحت اعلی سطح کے رابطوں کا سلسلہ آگے بڑھائیں گے۔ انہ وںنے کہاکہ چند گزارشات میں اس پہلو پر بھی کرنا چاہوں گا کہ ہم نے سفارتکاروں، عملے، بین الاقوامی تنظیموں کے نمائندوں، عالمی این جی اوز اور ذرائع ابلاغ کے افراد کے انخلاء کے لئے عالمی کوششوں میں بھرپور سہولت فراہم کی ہے۔ انہوںنے کہاکہ ہم نے بین الوزارتی ایک خصوصی سیل قائم کیا تاکہ ویزا اور آمد سے متعلق امور میں سہولت پیدا ہو۔ انہوںنے کہاکہ کابل میں پاکستانی سفارت خارجہ تیز ترین بنیادوں پر ویزے جاری کررہا ہے،پاکستان کے انٹرنیشنل ہوائی اڈوں پر آمد پر ویزے جاری کئے جارہے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں