رانا ثنا اللہ

بزدار کی جانب سے استعفے میں گورنر کی بجائے وزیر اعظم کو مخاطب کرنا غیر آئینی اور غیر قانونی ،دوبارہ استعفیٰ دیں او رمنظور کیا جائے’رانا ثنا اللہ

لاہور(گلف آن لائن) مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثنا اللہ خان نے کہا ہے کہ عثمان بزدار کی جانب سے استعفے میں گورنر کی بجائے وزیر اعظم کو مخاطب کرنا قطعی طو رپر غیر آئینی اور غیر قانونی ہے ، اس غلطی کو درست کیا جانا ناگزیر ہے اس لئے عثمان بزدار گورنر پنجاب کو دوبارہ استعفیٰ دیں اور منظور ی کے بعد محکمہ ایس اینڈ جی اے ڈی دوبارہ نوٹیفکیشن جاری کرے،اس استعفے کی وجہ سے نئے وزیر اعلیٰ کا انتخاب غیر آئینی او رغیر قانونی قرار دیا جا سکتا ہے ،جہانگیر ترین اور علیم خان گروپ نے وزیر اعلیٰ کیلئے حمزہ شہباز کی حمایت کر دی ہے ، چھینہ گروپ سے بھی بات چیت جاری ہے اور امید ہے کہ وہ بھی اپنا فیصلے تبدیل کریں گے،جب عمران خان نے دیکھا کہ ان کے بچنے کا کوئی چارہ باقی نہیں بچا تو اسٹیبلشمنٹ کو بلا کر ان کے سامنے رونا رویا گیا کہ مجھے بچائیں اور پھر تین تجاویز سامنے آئیں ۔

پنجاب اسمبلی کے احاطے میں پارٹی رہنمائوں کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ خان نے کہا کہ صوبے کے وزیر اعلیٰ کے استعفے کے حوالے سے آئین میں واضح درج ہے ۔ عثمان بزدار کے استعفے میں وزیر اعظم کو مخاطب کیا گیا ہے جو غیر آئینی اور غیر قانونی ہے ، عثمان بزدار آئین و قانون کے مطابق دوبارہ استعفیٰ دیں جس میں گورنر پنجاب کو مخاطب کیا جائے او راس کی منظوری دی جائے ۔ انہوں نے کہا کہ استعفے کی منظوری کے بعد سیکرٹری سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن نوٹیفکیشن جاری کریں ، یہ چیف سیکرٹری پنجاب کی بھی ذمہ داری ہے او راگر وہ اپنی اس آئینی ذمہ داری کو نہیں نبھائیں گے تو انہیں اس کیلئے جوابدہ ہونا پڑے گا اس لئے اس غیر آئینی او رغیر قانونی نوٹیفکیشن کو فوری واپس لیا جائے ۔ یہ جلد بازی میں سب کچھ بلڈوز کرنا چاہتے ہیں ، اگر ایک عمارت کی بنیاد ہی غلط ہو گی تو وہ دھڑام سے گر جائے گی ۔ اس استعفے کی بنیاد پر وزیر اعلیٰ کے انتخاب کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیا جا سکتا ہے ، بیشک اسے ایک دو روز میں ٹھیک کر لیں کیونکہ ہمیں کوئی جلدی نہیں،ہمارے نمبر آج بھی پورے ہیں اور دو روز بعد بھی پورے ہوں گے اور آپ کے نمبر نہ کل پورے تھے اور نہ دو روز بعد پورے ہوں گے لیکن اس بڑی غلطی کی تصحیح کر لی جائے ، ہمارے نمبر 200سے اوپر جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ جہانگیر ترین گروپ اور علیم خان گروپ نے حمزہ شہباز کی حمایت کر دی ہے ، جہانگیر ترین کی اسحاق ڈار اور نواز شریف سے ملاقات ہوئی ، ہماری چھینہ گروپ سے بھی ابھی بات چیت جاری ہے او رہو سکتا ہے وہ بھی اپنا فیصلہ تبدیل کر لیں ۔ انہوںنے کہا کہ حکومت سازی میں جو لوگ بھی ساتھ دے رہے ہیں یقینا اس کے مطابق وزارتوں کی تقسیم ہو گی لیکن اس حوالے سے کچھ باتیں سر عام نہیں ہو سکتیں ، جب حکومت بن جائے گی تو یہ سار ی چیزیں سامنے آ جائیں گی ۔انہوںنے کہا کہ چوہدری پرویز الٰہی کے ساتھ ہماری ملاقات کو پتہ نہیں کس کی نظر لگ گئی، اب وہ پاکستان تحریک انصاف کے نامزد کردہ امیدوار ہیں، ہم ان کا مقابلہ کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اوپر بیٹھا ہوا بھی سرپرائز دے رہا ہے او رنیچے بیٹھا ہوا بھی سرپرائز کی باتیں کر رہا ہے ، یہ چار سال سے سرپرائز ہی کر رہے ہیں ، اب بس کر دیں اور دوسرے لوگوں کو عوام کی خدمت کر نے دیں ۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان کی گھٹیا عادت ہے کہ وہ اپنے مخالفین کو برے ناموں سے پکارتے ہیں حالانکہ ان کا جو کردار ہے انہیں بہت سے نام دئیے جا سکتے ہیں ، جس کا کوئی کردار ہی نہیں اس کی بھلا کیا کردار کشی ہو سکتی ہے ۔ انہوں نے خط کے حوالے سے کہا کہ بتا یا جائے اس خط میں ہے کیا ؟، تمام ممالک کے سفیر دوسرے ممالک کے حالات کے حوالے سے تجزیہ کرتے ہیں ، عمران خان کو پتہ ہے کہ اب وہ عوام سے مہنگائی بیروزگاری ختم کرنے ،عوام کو ریلیف دینے ، قرضے نہ لینے کی بات نہیں کر سکتا تو اس نے عالمی طاقت کی سازش کا بیانیہ گڑھ لیا ہے کہ میں ایک عالمی لیڈر ہوں اور میرے خلاف سازش کی گئی ہے ، لیکن اب آپ کا یہ چورن نہیں بکے گا اور عوام اس سے دھوکہ نہیں کھائیں گے ، عمران خان تو کہتا تھاکہ میں شکر ادا کرتا ہوں کہ انہوںنے تحریک عدم اعتماد جمع کرائی ہے ۔

انہوں نے کہ اکہ وفاق میں حکومت سازی کے بعد متحدہ اپوزیشن کی مشاورت سے کابینہ بنے گی ، ہم کسی سے انتقام نہیں لیں گے بلکہ جس نے جو جرم کیا ہے اسے انصاف کے کٹہرے میں لائیں گے۔انہوں نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد ایک آئینی اور جمہوری عمل ہے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں