متحدہ اپوزیشن

متحدہ اپوزیشن کا اسمبلی بحال کرنے اور انتخابی اصلاحات کے بعد نیا الیکشن کرانے کا مطالبہ

اسلام آباد (گلف آن لائن)متحدہ اپوزیشن نے اسمبلی بحال کرنے اور انتخابی اصلاحات کے بعد نیا الیکشن کرانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہاہے کہ عمران نیازی نے غیرآئینی سول مارشل لاء نافذ کیا، اسمبلی کو بحال کیا جائے ، سپریم کورٹ معاملے پر فل کورٹ بینچ بنائے، اگر ہم قومی اسمبلی میں آئین نافذ نہیں کرسکتے تو ملک میں بھی نہیں کرسکتے ،ہم سب جمہوریت پسند لوگ ہیں، پاکستان کے آئین کا دفاع کرنا ہر شہری کی ذمہ داری ہے ،دھمکی کے بعد امریکی عہدیدار کا شکریہ سمجھ سے باہر ہے ،ہمارے دباؤ میں آکر حکومت نے خود کشی کرلی جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زر داری نے کہاہے کہ اعلیٰ عدلیہ ضیاء اور مشرف کا مارشل لاء نہیں روک سکی، عدلیہ سے امید اور درخواست ہے کہ عمران خان کے مارشل لا کو روکیں، عدلیہ سے کہتے ہیں آپ کے فیصلے سے ملک کی قسمت لکھی جائیگی،ہمیں تختہ دار پر لٹکادیں مگرجمہوریت کے تسلسل کو چلنے دیں۔

ان خیالات کا اظہار پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف ، پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زر داری ، جمعیت علمائے اسلام کے مولانا اسعد الرحمن ، بلوچ رہنما اختر مینگل ، عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما امیر حیدر خان ہوتی ، ایم کیو ایم کے کنوینئر مقبول صدیقی ، محسن داوڑ ، سینیٹرعبدالغفور حیدری و دیگر کی مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے کہا کہ تین اپریل کا دن پاکستان کی تاریخ میں سیاہ دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا کہ جب عمران نیازی نے سویلین مارشل لا نافذ کیا۔انہوں نے کہا کہ 3 نومبر کو جنرل (ر) مشرف نے بھی یہی آمرانہ، اور فسطائی اقدام اٹھایا تھا، عمران خان اور اس کے حواریوں نے آئین کی واضح خلاف ورزی، آئین شکنی کی ہے کیوں کہ 24 مارچ کو اسپیکر نے ایوان کی منشا کے مطابق عدم اعتماد کی قرار داد کو ملتوی کیا اگر کوئی اعتراض تھا تو 24 مارچ کو عدم اعتماد کی تحریک کو leave گرانٹ کیوں کی۔

انہوںنے کہاکہ اسمبلی کا پورا ایک نظام ہے اس کی ایک قانونی برانچ ہوتی ہے اسپیکر تمام مراحل طے کرکے ضوابط کے مطابق کسی ایجنڈا آئٹم کو ایوان میں پیش کرواتا ہے وگرنہ اسے اپنے دفتر میں ہی مسترد کردیتا ہے۔انہوںنے کہاکہ اگر کوئی چیز آرٹیکل 5 کی زمرے میں آرہی تھی تو اسپیکر نے اسی قرار داد کو ایوان کی منشا اور اجازت کے بعد لیو کیوں گرانٹ کی لہٰذا اس کے بعد کسی قسم کا ردو بدل ممکن نہیں تھا اور تحریک کو ہر صورت گزشتہ روز ووٹنگ کے لیے پیش کیا جانا تھا۔انہوںنے کہاکہ گزشتہ روز عمران خان نیازی نے ڈپٹی اسپیکر کو اپنا آلہ کار بنایا اور جب ایوان میں بیٹھے تو تلاوت قرآن پاک کے بعد آناً فاناً ایک وزیر کو فلور دیا جنہوں نے نہ جانے الابلا کہا اور اس پر اسپیکر نے ایک لکھا ہوا کاغذ پڑھا اور آرٹیکل 5 کا بہانہ بنا کر اس قراداد کو ووٹنگ سے ہٹا دیا۔شہباز شریف نے کہا کہ اگر کوئی اعتراض تھا یا امریکا سے کوئی کیبل آئی تھی تو 8 مارچ کو جب اسے ایوان میں جمع کرایا گیا تھا اس وقت سے لے کر 24 مارچ تک جب اسے قرار داد کو لیو گرانٹ کرنے کے لیے پیش کیا گیا تھا تو حکومت 24 مارچ کیوں اعتراض نہیں اٹھایا۔

انہوں نے کہا کہ یہ عمران نیازی اور ان کے حواری اس شکست کا سامنا نہیں کرسکتے تھے جو انہیں ہونے جارہی تھی اس لیے انہوں نے جمہوریت کو مسخ کیا، آئین توڑا اور کل پورا دن اور رات قوم ایک خلا میں جارہی ہے حالانکہ عدالت عظمیٰ نے کہا کہ کوئی ماورائے آئین اقدام نہ اٹھایا جائے لیکن ماورائے آئین اقدام تو کل خود عمران نیازی اور صدر پاکستان اٹھا چکے تھے۔صدر مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ ان کے اٹارنی جنرل نے کہا تھا کہ ووٹرز کو امن کے ساتھ جانے کی اجازت ہوگی اور تحریک پر ہر صورت ووٹنگ ہوگی۔انہوںنے کہاکہ جس خط کے بارے میں کہا جارہا ہے اس کے بارے میں کچھ کہنا چاہتا ہوں، دستاویزات بالکل مستند ہیں اس میں کوئی جھول نہیں ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستانی سفیر اسد مجید خان کی ایک ٹوئٹ میں بتایا گیا کہ انہوں نے 16 مارچ کو ایک الوداعی عشائیہ دیا اور امریکی معاون وزیر خارجہ ڈونلڈ لو کا شکریہ ادا کیا گیا جبکہ وہ خط جو دفتر خارجہ کو موصول ہوا وہ 7 مارچ کو تھا۔

رہنما مسلم لیگ (ن) نے کہاکہ 7 مارچ کو خط میں کہا گیا کہ ڈونلڈ لو سے ہونے والی بات چیت میں سامنے آئی کہ امریکا پاکستان میں حکومت تبدیل کرنے کی سازش کررہا ہے جبکہ 16 مارچ کو سفیر نے ان کی دعوت کی۔انہوں نے کہا کہہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 16 مارچ کی ٹوئٹ میں ہمارے سفیر شکریہ ادا کررہے ہیں جبکہ خط 7 مارچ کا ہے یا یہ بات غلط ہے جو سفیر نے اپنی ٹوئٹ میں کہی اور اگر بالفرض 7 مارچ کو کوئی ملاقات ہوئی اور انہوں نے کوئی ایسی بات کی تھی تو دعوت اور شکریہ کس بات کا تھا۔شہباز شریف نے کہا کہ اگر دھمکی دی گئی تھی تو دعوت دینا یہ بڑی متضاد باتیں ہیں، اسے ہلکا نہیں لیا جاسکتا۔انہوں نے کہا کہ جن 197 لوگوں نے (خودساختہ اجلاس میں) تحریک عدم اعتماد پر ووٹ دیا ہے تو اسپیکر کے بھاشن کے مطابق تو ہم غدار ہوگئے، یہ قوم، آئین، پارلیمان کے ساتھ سنگین مذاق کیا گیا ہے۔انہوںنے کہاکہ عمران نیازی نے سازشی ذہن کے تحت آئین توڑا، صدر نے آئین توڑا، انہیں اسمبلیاں توڑنے کا کوئی حق نہیں تھا، اسپیکر کی رولنگ غیر آئینی تھی۔شہباز شریف نے کہا کہ حکومت نے آئین کی دفعہ62 کا حوالہ دیا کہ ایوان کی کارروائی پر کوئی نوٹس کوئی سماعت نہیں ہوسکتی، یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ ایوان کی کارروائی کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا لیکن اگر آئین و قانون کی دھجیاں بکھیری جائیں تو اسپیکر کو تحفظ حاصل ہوگا۔انہوں نے کہا کہ یہ معاملات نہایت سنگین ہیں ہم اس بات کو یہی نہیں رہنے دیں گے، پورے پاکستان میں احتجاج کریں گے، غدار کی بات انہوں نے کی ہے، ہم نے کبھی غدار کی بات نہیں کی۔

اس موقع پر پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ عمران اور اس کی حکومت ہماری سیاسی بندوق کی نوک پر تھی جسے فائر کر کے ہمیں اس کا خاتمہ کرنا تھا لیکن ہم سب کے دباؤ کی وجہ سے، پارلیمان کے باہر جدوجہد اور ہم سب نے مل کر جو 3 ماہ کے لیے اس حکومت کا جینا حرام کر رکھا تحریک عدم اعتماد کے ذریعے تو حکومت نے خود بندوق اٹھا کر خود کشی کرلی۔انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کو ہٹانے کا ایک ہی آئینی و جمہوری طریقہ ہے اور وہ تحریک عدم اعتماد ہے، وزیراعظم نے اپنی انا کی وجہ سے عدم اعتماد کو آئین توڑ کر سبوتاژکرنے کی کوشش کی ہے۔انہوںنے کہاکہ وزیراعظم کو اندازہ نہیں ہے کہ ہوا کیا ہے، ہم سب جمہوریت پسند لوگ ہیں، پاکستان کے آئین کا دفاع کرنا ہر شہری کی ذمہ داری ہے۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ جمہوریت اور آئین کا تحفظ کرنے والے ہیں، گزشتہ روز وزیراعظم ایک آئینی اور جمہوری طریقے سے اسی نتیجے پر آسکتا تھا، ہماری تحریک عدم اعتماد جمع ہونے سے پہلے وہ استعفیٰ دیتے تو بھی آئینی طریقہ ہوتا یا تحریک پر ووٹنگ کرا کر حکومت چلی جاتی۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز یہ ہوا کہ وزیراعظم، صدر پاکستان، اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر نے ملی بھگت سے آئین توڑ کر عمران خان کی انا کو سنبھالا ہے۔انہوں نے کہا کہ آئینی عدالت، پاکستان کے عوام فیصلہ کریں کہ عمران خان کی انا زیادہ اہم ہے یا دستور پاکستان، قومی اسمبلی، عدالت عظمیٰ زیادہ اہم ہے۔بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ ضیاء اور مشرف کا مارشل لاء نہیں روک سکی، عدلیہ سے امید اور درخواست ہے کہ عمران خان کے مارشل لا کو روکیں، ہماری درخواست ہے، عدلیہ سے کہتے ہیں آپ کے فیصلے سے ملک کی قسمت لکھی جائے گی، عمران نے جو یہ کام کیا ہے آپ کا فیصلہ یہ فیصلہ سنائے گاکہ کیا ہمارا آئین ایک کاغذ کا ٹکڑا ہے یا وہ اسلامی جمہوری وفاقی نظام کو جوڑنے والی دستاویز ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم آئین کا دفاع کرتے رہیں گے تاہم جو ہوا ہے اعلیٰ عدلیہ سے درخواست ہے کہ اس آئینی بحران کو ایڈجسٹ کرنے کیلئے فل کورٹ بینچ تشکیل دیا جائے، فل کورٹ بینچ اس کا فیصلہ سنائے، ہمیں اگر پھانسی چڑھانا ہے تو چڑھا دیں لیکن عدم اعتماد پر ووٹنگ کرادیں۔

چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ ہمارے کچھ کارکنان کنفیوژہیں اور کچھ کارکن جشن منا رہے ہیں کہ سلیکٹڈ کی حکومت کو گھر بھجوادیا، وزیراعظم کو پتہ نہیں ان کے ساتھ ہوا کیا ہے، ہم سب کے دباؤ کی وجہ سے 3 ماہ اس حکومت کا جینا حرام ہوگیا تھا۔انہوںنے کہاکہ ہماری عدم اعتماد جمع ہونے سے پہلے یا ووٹ سے پہلے وہ استعفیٰ دیتا تو یہ آئینی طریقہ ہوتا،دوسرا یہ ووٹنگ ہوتی جس میں ایک سو ستانوے اس کے خلاف تھے۔ انہوںنے کہاکہ صدر نے پاکستان کا آئین توڑ کر عمران خان کی اناکو سنبھالا ہے،کیا عمران کی ایگو اہم ہے یا پاکستان کا آئین اہم ہے۔ انہوںنے کہاکہ چار اپریل وہ دن ہے جب ذوالفقار بھٹو کا عدالتی قتل کیا گیا،آج تک ہمیں اس پر انصاف نہیں مل سکا ہمارا ریفرنس موجود ہے۔

جے یو آئی کے رہنما مولانا اسعد محمود نے کہاکہ تین اپریل کا دن پاکستان کا آئین توڑنے کی کوشش کی گئی اور توڑا گیا،حکومتی سطح پر جس طرح وزیراعظم کا اینٹی مغرب بیانیہ گردش کررہا ہے،یہ بین الاقوامی ٹھگ اب پاکستان کی عوام کو اور مزید دھوکہ نہیں دے گا۔ انہوںنے کہاکہ جسٹس ثاقب نثار نے اس کیلئے تاریخ میں سیاہ کردار ادا کیا،چند روز قبل اس نے بیان دیا کہ نواز شریف اعلیٰ عدلیہ میں جج خریدنے کوشش کررہے ہیں،اعلیٰ عدلیہ کو اسی دن اسے کٹہرے میں کھڑا کرکے بیان کے بارے میں ہوچھنا چاہیے تھا،ہم نے مہنگائی مارچ کے پلیٹ فارم سے مطالبہ بھی کیا ،آج بھی وہ اداروں پر دبائو ڈالنے کی کوشش کررہا ہے،پہلے بھی وہ بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کے دبائو سے اقتدار میں آیا،پاکستان میں کسی بین الاقوامی سازش نہیں ہونے دیں گے،ہم آئین پاکستان کی سالمیت چاہتے ہیں،یہ شخص مسلسل آئین کو رد کررہا ہے۔ انہوںنے کہاکہ آپریشن ردالفساد اور ضرب عضب کیا جاسکتا ہے توآئین توڑنے والوں کو بھی دیکھا جائے۔ انہوںنے کہاکہ اعلیٰ عدلیہ پارلیمان کو اس کا حق واپس کرے۔

انہوںنے کہاکہ ایک سو ستانوے افراد کے خلاف جو غدار کا اس نے الزام لگایا تو اس کی تحقیقات کیلئے اسمبلی کو موقع دے،ورنہ گلی گلی لڑائی ہوگی کہ کون غدار ہے اورکون غدار نہیں ہے۔ انہوںنے کہاکہ جس طرح آئین کی کئی شقوں کو ڈپٹی اسپیکر نے توڑا اس سے تو نیا چیف جسٹس، نیا آرمی چیف اورنیا ڈی جی آئی لگانے کی توقع کی جاسکتی تھی؟،ہم اپنے حق کیلئے اپنا موقف دے رہے ہیں،ہم اس محاذ کو آئین توڑنے تک نہیں ختم ہوں گے۔ اس موقع پر اختر مینگل نے کہاکہ بلوچستان سے جو ان گائیڈڈ میزائل قاسم سوری لایا گیا اس پر بولوں گا،پاکستان میں اس سے پہلے بھی سیاہ آئینی دن دیکھا،بدقسمتی سے آئین شکنوں نے خلاف کبھی کارروائی نہیں ہوئی،اس ڈپٹی اسپیکر کی اپنی سیٹ ڈیڑھ ،دو سال سے اسٹے پر ہے،ایوان میں آئین کو اس طرح سے مسخ کیا جائے تو عام لوگ کیوں آئین کی پاسداری کریں گے،؟جب ہم آئین کی بات کرتے ہیں تو ہمیں تختہ دار پر لٹکایا جاتا ہے،سندھ ہائوس پر حملہ کرنے والوں پر دفعہ ایک سو چوالیس لگائی جاتی ہے،طاقتور کیلئے قانون الگ ہے اور چوروں کے لئے الگ ہے،اسی طرح سے آئین بھی طاقتور کیلئے الگ ہے،ڈپٹی اسپیکر پر باون ہزار جعلی ووٹوں کا الزام ہے۔ امیر حیدر خان ہوتی نے کہاکہ سب سے پہلے تو یہ کہ عمران اپنے لئے جو بیانیہ بنانے کی کوشش کررہا ہے اس کی بنیاد ایک خط ہے،وہ کہتا ہے کہ مجھے دھمکی دی گئی ہے،اس خط اور دھمکی کی سچائی سامنے آنی چاہیے ۔

انہوںنے کہاکہ اسلام آباد میں ایک سیکیورٹی کانفر نس ہوتی ہے وزیراعظم اس میں بولتے ہیں ،اگلے دن آرمی چیف اسی کانفرنس میں آکر بولتے ہیں، پوری قوم سنتی ہے۔ انہوںنے کہاکہ عمران نئے بیانیہ کے ساتھ الیکشن میں جانے کی کوشش کررہے ہیں،اس وقت اپنی سیاست کیلئے پاکستان کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا ہے،دھمکی دی گئی سازش ہوئی اسے ابھی ثابت کرنا ہے،اس سازش اور دھمکی کو اپوزیشن کے عدم اعتماد کے ساتھ جوڑا گیا۔ انہوںنے کہاکہ اعلیٰ عدلیہ سے مطالبہ ہے کہ ایک سو ستانوے افراد پر الزام لگا اس کی وضاحت ہونی چاہیے ،جس نے عدم اعتماد کو روکا اس جے خلاف آرٹیکل سکس لگنا چاہیے ۔ انہوںنے کہاکہ وقت آگیا ہے پارلیمنٹ کے اندر بھی جدوجہد جاری رکھیں اور سیاسی میدان میں بھی۔ انہوںنے کہاکہ عمران خان نے غیر جمہوری طریقہ سے عدم اعتماد سے بچنے کی کوشش کی،دوبارہ انہی اسمبلی سے عدم اعتماد ہوگا ،نئی حکومت بنے گی اور انتخابات ہوں گے،پہلے انتخابی اصلاحات پھر انتخابات ہونگے ۔ محسن داوڑ نے کہاکہ اپوزیشن کی قیادت نے تمام پہلوئوں پر بات کی ہے،عمران خان جمہوریت کے خلاف ایک پراجیکٹ ہے جو لانچ کیا گیا،عمران نے گزشتہ روز پاکستان کے آئین پر خودکش حملہ کیا،عمران خان سمیت ان سب پر آرٹیکل سکس لاگو ہوگا،انتہائی ناقص اسکرپٹ کے ذریعہ سب کیا جارہا ہے،جس نے جمہوریت پر شب خون مارا تھا ان کا بھی احتساب ہونا چاہیے ۔

ایم کیو ایم کے خالد مقبول صدیقی نے کہاکہ سابق وزیراعظم نے سیاسی شکست سے بچنے کیلئے سیاسی خودکشی کرلی،ایک عدالتی کمیشن بناکر ثابت کیا جاتا کہ عمران کے خلاف عالمی سازش ہوئی ہے،پہلے ثابت تو کریں کہ سازش ہوئی ہے،جو گزشتہ روز ہوا وہ آپ نے جمہوریت کو ختم کرنے کے لئے کیا،آپ کی لڑائی اور بیانیہ سڑکوں پر آئیگا تو باقی بھی نئے بیونیہ سے آئیں گے۔ انہوںنے کہاکہ آپ کو شرافت کی سیاست پر آنا چاہیے ،آپ نے ہم سے پچھلے انتخابات میں چودہ سیٹیں چھینی تھیں ہم نے آپ کی حکومت چھین لی۔ ایک سوال پر بلاول بھٹوزر داری نے کہاکہ آئینی بحران پیدا ہوا ہے ،ہمارا مطالبہ آئینی اور جمہوری راستہ ہے جسے استعمال کیا جائے،عدلیہ کے پاس موقع ہے اپنے آپ سے داغ ہٹائے پارلیمان پر داغ بھی دھودیا جائے۔ اسد محمود نے کہاکہ ہمیں قطعا نگران قبول نہیں ،آئین فیصلہ کرے گا،ہم اصلاحات کے ساتھ جائیں گے اور پارلیمان کے ذریعہ جائیں گے۔

شہباز شریف نے کہاکہ عدالت عظمیٰ کا مطالبہ اسی لئے کھٹکھٹایا ہے، یہ ان کا کام ہے،ہمیں امید ہے عدالت عظمی فل کورٹ میں یہ معاملہ لے کر آئے،پارلیمان کو اس کے حقوق واپس ملیں،عدالت عظمی پر بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ یک سوا ل پر بلاول بھٹو زر داری نے کہاکہ اسپیکر ڈپٹی اسپیکر کے خلاف عدم اعتماد پہلے نہ لانا ہمارا مشاورت سے فیصلہ تھا،اسپیکر اور وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ ہونا تھا،آئین اور جمہوریت کا سوال ہے جس کے جواب اعلیٰ عدلیہ دیں گے۔ انہوںنے کہاکہ قاسم سوری کو کس نے اتنا اختیار دیا کہ آدھی سے زیادہ اسمبلی کو غدار قرار دے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں