اسلام آباد ہائیکورٹ

اسلام آباد ہائیکورٹ، پاکستان لائے گئے بچے ماں کیساتھ پولینڈ بھیجنے کا حکم

اسلام آباد(نمائندہ خصوصی) ہائی کورٹ نے پاکستان لائے گئے بچوں کو ان کی ماں کے ساتھ پولینڈ بھیجنے کا حکم دیتے ہوئے ای سی ایل سے نام ہٹا کر بچوں کے پاسپورٹ واپس کرنے کی ہدایت کردی۔ عدالت نے قرار دیا کہ دونوں بچے اپنی ماں کے ساتھ پولینڈ جائیں گے۔ بچوں کی مائیں والد کی بچوں سے ملاقات میں سہولت دیں گی۔

بدھ کو پولینڈ کی 2 خواتین کی جانب سے اپنے بچوں کے والد کیخلاف حوالگی کے کیس کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے کی۔ اس موقع پر دونوں خواتین بچوں کے ساتھ عدالت میں موجود تھیں جب کہ پاکستانی شہری محمد سلیم، پولینڈ سفارت خانے کے حکام اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ عدالت کے حکم پر ایف آئی اے نے بچوں اور والد کے پاسپورٹ حاصل کرلیے۔ سماعت کے آغاز پر پولش خواتین کے وکیل بیرسٹر عقیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ بچوں کو دو تین ہفتوں کے لیے پاکستان لایا گیا، لیکن واپس نہیں بھیجا گیا۔ بچے 7 سال سے ماں کے ساتھ اور پولینڈ کے شہری ہیں۔ پاکستان میں وزٹ ویزا پر آئے۔ وکیل کے مطابق پولینڈ میں دونوں خواتین نے کرمنل کمپلینٹس درج کروائیں۔ یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ بچے پولش عدالتی حکم پر ماں کے پاس تھے۔

بچوں کے ساتھ ان کے والد نے وعدہ کیا کہ قرآن پڑھنے کے بعد وہ ان کو پولینڈ بھیج دے گا۔ 14 ماہ کا عرصہ ماں نے بہت مشکل سے گزارا ۔وہ بے یارو مددگار تھیں۔ وکیل نے حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ جسٹس خواجہ شریف نے 2010 میں اسی طرح کے ایک کیس میں پولش بچے واپس بھیجے۔ پاکستان کی فیملی کورٹس بھی کم عمر بچے ماں کے حوالے کرتی ہیں۔ درخواست میں استدعا کی گئی کہ دونوں بچو ان کی پولش ماں کے حوالے کیے جائیں۔ پاکستانی شہری محمد سلیم کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ 7 سال سے زیادہ عمر کے بچوں سے عدالت رائے لے سکتی ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت نے دیکھنا ہے کہ آخری دفعہ بچے کس کے پاس تھے۔ ماں یا باپ جو بھی قانونی گارڈین ہے عدالت اپنافیصلہ کردے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ میرے خیال میں 6 سال کے بچوں کا مذہب کیسے تبدیل کرایا جا سکتا ہے۔

انہوں نے خود کہا کہ پولینڈ میں ان کے مابین طے تھا کہ وہ چرچ میں اور یہ مسجد میں بچے لے جایا کریں گے۔اس طرح پھر 18 سال کے بعد بچے خود طے کر لیں گے کہ انہوں نے کس طرف جانا ہے۔ عدالت نے دونوں بچوں کی ماں کو روسٹرم پر بلایا اور سوال کیا کہ کیا بچی کی والدہ نے نکاح سے پہلے اسلام قبول کیا، جس پر خاتون نے جواب دیا کہ میں نے 2005 میں نکاح کیا لیکن اسلام قبول نہیں کیا۔ عدالت نے دوسری خاتون سے پوچھا کہ کیا آپ کی سلیم کے ساتھ شادی تھی ؟، جس پر اس نے جواب دیا کہ میرا سلیم کے ساتھ نکاح نہیں تھا، نہ ہی اسلام قبول کیا،میں سلیم کے ساتھ بغیر نکاح لیونگ ریلیشن شپ میں تھی۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کیا بچے پولینڈ کے اسکول میں پڑھ رہے تھے؟، جس پر خواتین نےبتایا کہ بچے پولینڈ کے اسکول میں پڑھ رہے تھے۔ عدالت نے پوچھا کیا بچے پاکستان میں بھی پڑھ رہے ہیں جس پر وکیل نے جواب دیا کہ بچے گلریز میں اقرا چلڈرن اسکول راولپنڈی میں پڑھ رہے ہیں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے دونوں بچوں کو اپنے چیمبر میں بلایا۔ بعد ازاں عدالت نے محمد سلیم سے استفسار کیا کہ اگر بچے آپ کے پاس ہوں تو ماں کو کیا سہولت دیں گے؟، جس پر پاکستانی شہری نے کہا کہ جب بھی یہ (خواتین) کہیں گی، میں انہیں بچوں سے ملواں گا۔ عدالت نے خواتین سے پوچھا کہ اگر آپ کو بچے دیے جائیں تو کیا والد کو ملنے دیں گی، جس پر دونوں خواتین نے ہامی بھر لی۔

بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے دونوں بچے ان کی پولش ماں کے حوالے کرنے کا حکم دیتے ہوئے ای سی ایل سے نام ہٹا کر بچوں کے پاسپورٹ واپس کرنے کی ہدایت کردی۔ عدالت نے قرار دیا کہ دونوں بچے اپنی ماں کے ساتھ پولینڈ جائیں گے۔ بچوں کی مائیں والد کی بچوں سے ملاقات میں سہولت دیں گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں