خواجہ سعد رفیق

واضح کہہ چکے ہیں ائیر پورٹس کی نجکاری نہیں کی جارہی، ایک انچ بھی نہیں بیچیں گے ‘ سعد رفیق

لاہور( نمائندہ خصوصی)وفاقی وزیر ریلوے و ہوا بازی خواجہ سعد رفیق نے کہاہے کہ واضح کہہ چکے ہیں کہ ائیر پورٹس کی نجکاری نہیں کی جارہی ، ایک انچ بھی نہیں بیچیں گے ، حکومت نے تین اہم ائیر پورٹس کے آپریشن ایک خاص مدت کیلئے آئوٹ سورس کرنے کا فیصلہ کیا ہے اوراس مقصد کیلئے وہی ماڈل اپنایا جارہا ہے جو دنیا بھر میں رائج ہے ،پی آئی اے کے یورپ اور یو کے کے روٹس کو کھلوانے کے لئے ہم ایڑ ی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں اور کامیابی کے ہدف کے قریب ہیں،ریلوے نے جولائی سے دسمبر تک 28ارب30کروڑ کمائے ، اس عرصے میں53ارب کے اخراجات ہیں،اگر سیلاب سے آپریشن بند رہنے کی وجہ سے7ارب کا نقصان نہ ہوتا پونے پانچ ارب کا آپریشنل خسارہ صفر ہونا تھا ، جنیوا میں ہونے والی ڈونرز کانفرنس میں ہم نے 40ارب روپے کی درخواست بھجوائی ہے اور ہمیں توقع ہے کچھ مل جائے تو پاکستان ریلوے ٹریکس کی مینٹی ننس پر لگائے گا ،چین سے آنے والی کوچز کے حوالے سے منفی پراپیگنڈا کیا گیا ، یہ کوچز دو سال کی وارنٹی میں ہیں جبکہ چینی انجینئرز بھی چھ ماہ پاکستان میں ہیں۔

ریلوے ہیڈ کوارٹر میں سول ایوی ایشن اور ریلوے کے افسران کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے اہم ترین ائیر پورٹس کے آپریشنز یہی انٹر نیشنل آپریٹر چلا رہے ہیں ، ایک تو وہ یہاں اپنی سرمایہ کاری لائیں گے اور دوسرا کارکردگی بہت بہتر ہو گی ، اس میں بہت ایڈوانس ایکسپرٹیز ہیں ، یہ کئی سال پہلے بلکہ دہائیاں پہلے ہوجانا چاہیے تھا ۔ انہوں نے کہا کہ اب ہم نے جنگی بنیادوں پر کام شروع کیا ہے ، انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن ورلڈ بینک کا ذیلی ادارہ ہے ،اس نے دنیا بھر کے ائیر پورٹس کو کنسلٹنسی دی ہے ، یہ دنیا میں مانا ہوا ہے مستند ادارہ ہے ، اس نے ہمیں بھی کنسلٹنسی کی سروس مہیا کی ہے اور ہم نے کام شروع کر دیا ہے ۔ہم پرائیویٹ پبلک پارٹنر شپ اتھارٹی کے ساتھ کام کر رہے ہیں، یہ واضح ہے کہ نجکاری نہیں ہو گی ، ایک انچ بھی نہیں بیچا جارہا ، ملک کے خلاف زہریلا پراپیگنڈا کیا ہے،یہ ہمیں نقصان پہنچانے کے لئے کیا جارہا ہے ، ہماری تو خیر ہے لیکن ریاست کو نقصان نہیں ہونا چاہیے ۔

ملک کے ہوائی اڈوں کا جو حال ہے وہ سب کو پتہ ہے، ہم جو کام کرنے جارہے ہیں وہ انٹر نیشنل پریکٹس ہے اور پوری دنیا نے یہ ماڈل اپنایا ہوا ہے ، جی ٹو جی ہم ٹینڈر کریں گے ،قطر اور متحدہ عرب امارات کو پیشکش کی ہے ،انٹر نیشنل کمپیٹیٹر بڈز دیں گے اور جو بہترین پیشکش دے گا اسے آئوٹ سورس کریں گے ، یہ نظام اپ گریڈ ہونا چاہیے تاکہ پاکستانکے شہریوں کو بھی سہولت ملے ، اس سے براہ راست سرمایہ کاری آئے گی ، ایک خاص مدت کے بعد یہ سب کچھ ہمارے پاس آ جائے گا ، پھر دیکھیں آنے والے اسے کیسے آگے لے کر چلیں گے۔ خواجہ سعدرفیق نے کہا کہ پی آئی اے مدتوںکا بیمار ادارہ ہے لیکن میں نے اندازہ لگایا ہے یہ قابل اصلاح ہے لیکن اس کے لئے بہت سنجیدگی اور تسلسل کی ضرورت ہے ، اس کے لئے زیادہ وقت درکار نہیں ہے ، ہم ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں کہ پی آئی اے کے یورپ اور یو کے کے روٹس کھل جائیں اور ہم کامیابی کے ہدف کے قریب ہیں ، بیرونی دبائو ہے ، اینٹی لابی ہے جو چاہتی ہے کہ پی آئی اے فلائی نہ کرے، کون سی ائیر لائنز اسے لوٹ کر لے گئی ہیں اور اب بھی وہ پورا زور لگا رہے ہیں ۔

اگر یہ روٹس کھل گئے تو ٹکٹ کی قیمت بھی نیچے آئے گی ۔اگر 12سے 14طیارے ڈرائی لیز پر پی آئی اے کے بیڑے میں شامل ہو جائیں تو ہم اپنی آپریشنل کاسٹ پوری کر جائیں گے ، پی آئی اے کے ڈیٹ کے ساڑھے چھ سے سات ارب ہیں جو زیادہ مقامی بینکوں کے ہیں ۔ اگر کام کرنے دیا جائے تو پی آئی اے ترقی کر سکتا ہے ، اس کے لئے تسلسل رہے اوراکھاڑ پچھاڑ نہ کی جائے ۔ہم نے فوڈ کوالٹی کو بہتر کیا ہے، لاہور میں تباہی تھی ،کراچی اور راولپنڈی میں ہمارے کچن ہیں وہاں بھی بہتری لائے ہیں ۔ہمارے پاس 14اے تھری ٹونٹی ہیں جن میں 4 لیز پر ابھی لئے ہیں،دس پہلے تھے جن میں سے سات جہازوں کی نشستیںٹھیک ہونے والی تھیں اورکوئی حال نہیں ،دو کی نشستیں ٹھیک ہو گئی ہیں اور پانچ کی مارچ تک مکمل تبدیل کر لیں گے ، یہ گلف میں بھی جارہے ہیں اور ڈومیسٹک بھی اڑ رہے ہیں۔ 12ٹرپل سیون ہیں جب میںنے چارج لیا تھا تو اس وقت 8 اڑ رہے تھے ،دو ٹرپل سیون میں سے ایک اس ماہ اور ایک اگلے ماہ فلیٹ میں واپس آ جائے گا ، دو کا مشکل کام ہے ، ٹرپل سیون کے حالات بھی ٹھیک نہیں ہے ان کی نشستیںبھی تبدیل ہوں گی ، یہ مرحلہ وا ہوگا اور اس میںآٹھ ماہ لگ جائیں گے۔

انہوںنے کہاکہ پی آئی اے کی برینڈنگ نہ ہونے کے برابرتھی اس کے لئے بجٹ نہ ہونے کے برابر تھا ، ہم اس کا مارکیٹ سے انتظام کر رہے ہیں ،پہلے یہ 2کروڑ روپے تھا ہم اسے 48کروڑ روپے لے کر جائیں گے اور اس ہدف کوحاصل کریں گے اور اس پر کام شروع کر رہا ہوں۔ پی آئی اے کے عملے کا رویہ بھی بہتر ہوا ہے اور رویہ مزید بہتر کرنا ہے ، ترکیہ کے ساتھ شراکت داری سے فائدہ ہوا ہے ،ڈیڑھ سے دو ماہ میں53ہزار ٹکٹیں فروخت ہونے سے پی آئی اے کو تین ارب کا ریو نیو آ چکا ہے ،ایمریٹس کے ساتھ کوڈ شیئر نگ کے لئے بات چل رہی ہے ،ان کی تجویز آئی ہے ہم نے بھی اپنی تجویز دی ہے ، انشا اللہ راستہ بنے گا اورجوائنٹ ونچر ہوگا۔ خواجہ سعد رفیق نے ریلوے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ریلوے نے جولائی سے دسمبر تک 28ارب30کروڑ کمائے ہیں، اس عرصے میں53ارب کے اخراجات ہیں،پنشن تقریباً20ارب کے لگ گئے ہیں، آپریشنل پر33ارب روپے لگ گئے ہیں ،اس کا مطلب ہے کہ آپریشنل خسارہ پونے پانچ ارب روپے ہے ،سیلاب سے آپریشنل بند ہونے سے ریو نیو میں7 ارب کاخسارہ ہوا بصورت دیگر پونے پانچ ارب کا خسارہ بھی نہیںہونا تھا۔ہمیں پنشن بھی کما کر دینی پڑتی ہے ،کچھ حکومت ہمیں سپورٹ کرتی ہے تب گزارہ ہوتا ہے ۔

ہمیں بڑی مشکل سے21ارب70کروڑ روپے کی سبسڈی ملی ہے ، فنانس ڈیپارٹمنٹ پر بڑادبائو ہے ابھی پونے چار ارب روپے ریلیز کرائے ہیں ۔جولائی سے دسمبر تک ساڑھے 17 ارب روپے تنخواہوںاور20ارب روپے پنشن کی مد میں ادا کر چکے ہیں۔ سیلاب نے ریلوے کے 500ارب کے انفراسٹر کو نقصان پہنچایا ہے ، ہم نے حکومت سے ایک آنہ نہیں لیا ،ریلوے کے مزدوروں ، افسروں اور مینجمنٹ نے سروس کو بحال کیا ہے ، کوشش ہے کہ اداروںکو قدموں پر کھڑا کریں ، ہمیں ریلوے دوبارہ جس حال میں ملا ہے اس کا سوا ستیا ناس تھا ۔ آپریشنل کاسٹ اورخسارے کو پورا کرنے کے لئے کوشش کر رہے ہیں۔

انہوںنے بتایا کہ سیلاب سے پہلے 47ٹرینیں چل رہی تھیں،اب 36چل رہی ہیں لیکن ریو نیو اتنا ہی جتنا 47ٹرینوں کا تھا ، صرف یہ کرایہ بڑھا کر نہیں ہوا ، ہم نے ٹرینوںکو کمپوزیشن پر چلایا ہے ۔ ہماری روزانہ آمدنی 15کروڑ روپے جبکہ روزانہ کاخرچہ 19کروڑ روپے ، اس خسارے کو ختم کرنے کے لئے چار سے پانچ راستے ہیں ، ہم سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی درخواست لے کر گئے ہوئے ہیں کہ محکمے کی زمینوں کے کمرشل استعمال پر جو پابندی لگ گئی تھی انہیں شفاف طریقے سے استعمال کرنے کی اجازت دی جائے ، ہم یہاں سے بہت ریو نیو نکال سکتے ہیں وگرنہ ان پر قبضے ہو جائیں گے، اس طرح یہ ریگو لرائز ہو جائیں گی ، ریل کاپ برینڈنگ پر کام کر رہی ہے ،اس سے بھی ریو نیو آ سکتا ہے اور اس پرسنجیدگی سے کام کر رہے ہیں۔ آپٹک فائبر کے لئے مختلف پیشکش آئی ہوئی ہیں ، ہم نے کہا ہے کہ ریو نیو شیئرنگ فارمولے پر کام کریں اس پر وقت لگے گا لیکن یہ راستہ بن جائے گا جو مستقل ریو نیو کا ذریعہ ہوگا۔ ریلوے کے ٹریکس کی مزید سیفٹی کیلئے فنڈنگ چاہیے اور ہماری آمدن میںکوئی گنجائش نہیںہے ،ڈونرز کانفرنس جو جنیوا میں ہو رہی ہے اس میں ہم نے 40ارب روپے کی اپنی درخواست بھجوائی ہے اور ہمیںتوقع ہے کچھ مل جائے تو پاکستان ریلوے ٹریکس کی مینٹی ننس پر لگائے گا ، اس سے ٹرینوںکی سپیڈ بڑھے گی اورمزید ٹرینیں چلانے کا موقع ملے گا۔

انہوںنے مزید کہاکہ پاکستان اور بھارت براڈ گیج پر اور باقی دنیا میں کہیں بھی براڈ گیج نہیں ، چائنہ میں براڈ گیج نہیں ہے ، ہمیں جو چیز لینی ہے ان کے پاس وہ ٹریک نہیں ہیںکہ ان پر دوڑا نہیں سکتے۔ چین سے 46کوچز آئی ہیں ، ان کوچز کو ڈھائی ہزار کلو میٹرز چلایا گیا ہے پھر انہیں برانچ لائنوں پر لے کر آئے ہیں ، ایک ریلوے کوچ میں2000پارٹس ہوتے ہیں، ان میں سے صرف ایک پائپ کا فالٹ نظر آیا جس سے کوچ سے انجن میں سگنل پاس نہیں ہو رہا تھا،ان کوچز کی دو سال کی وارنٹی ہے ، چینی انجینئرز چھ ماہ کے لئے پاکستان میںموجود ہیں، ہم نے انہیں بتایا تو انہوںنے اپنے خرچے پر تبدیل کر دیا ہے اور اس پر انتہا ئی معمولی لاگت آئی ہے ۔لیکن اس بات کا بتنگڑ بنا دیا گیا ، چینی سفارتخانے نے اس کی وضاحت کی ہے ، آپ کہتے ہیںسارے چور اور نا لائق ہیں نہیں ایسا نہیں ہے یہانبہترین لوگ ہیں بھی ہیں، جو اپنی تنخواہ سے چار گنا زیادہ کام کرتے ہیں، ایک سیاسی جماعت کے سپانسر ڈ پیجز سے کوچز کے حوالے سے منفی خبر کو وائرل کیا گیا ، انشا اللہ جب یہ کوچز گرین لائن میں چلیں گی تو پھر آپ چلو بھر پانی میں ڈوب مریں ۔ تنقید جتنی مرضی کریں لیکن قوم کو مایوس نہ کرو، اس کے ذریعے ٹرانسفر آف ٹیکنالوجی پاکستان میں آئی ہے ، 230کوچز کا آرڈر ہے جس میں 46آئی ہیں باقی یہیں بنیں گی ، ہم نے مشینری بھی لی ہے ورکشاپ بھی اپ گریڈ ہو رہی ہیں لیکن شاباش دینے والا کوئی نہیںہے ۔

اور کوچز بھی آرہی ہیں،820گڈز ویگنز لے رہے ہیں یہ بھی پرانا پراجیکٹ ہے یہ بھی چار سال لیٹ ہوگئی ہے ہیں، پہلی ڈلیوری اس ماہ کے آخری میں آرہی ہیں،شپمنٹ ہو چکی ہے ، اس سے بھی ہمارا ریو نیو بڑھے گا، اس منصوبے کے تحت بھی620پاکستان میں مینو فیکچر ہوں گی ۔ انہوںنے گرین لائن کے چلنے میں تاخیر کے حوالے سے کہا کہ کچھ سہولیات فراہم کرنے پر کام ہو رہا تھا جس کی وجہ سے تاخیر ہوئی ہے لیکن اس ماہ کے آخر تک گرین لائن ٹریک پر ہو گی ۔انہوںنے کہاکہ ایم ایل ون کے لئے ہمایوں رشید کی سربراہی میں یونٹ کو فعال کر دیا ہے ،چین سے بات چل رہی ہے اور وہ تیار ہو چکے ہیں، یہ بہت بڑا پراجیکٹ ہے ، تاخیر کی وجہ سے اس منصوبے کی لاگت بھی بڑھ گئی ہے ، اس کے لئے ہائیڈرالک سٹڈی دوبارہ کرنا پڑے گی ۔ سندھ کے اندر مشکل علاقہ ہے اس لئے اپنی ترجیحات کو تبدیل کیا ہے اب سندھ میں پہلے کام شروع ہو گا اور زیادہ وہاں پر کام ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں