ایمن سوسان

سعودی عرب ایران مفاہمت سے خطے میں مداخلت کا خاتمہ ہو جائے گا، شام

دمشق(گلف آن لائن)شام کے نائب وزیر خارجہ ایمن سوسان نے کہا ہے کہ عرب لیگ میں اپنی واپسی کو شام عرب خاندانی معاہدے کی ایک ہم آہنگی کے طور پر دیکھتا ہے۔ اس واپسی کی بین الاقوامی سطح پر اچھی طرح سے عکاسی ہونی چاہیے۔میڈیارپورٹس کے مطابق سوسان نے نشاندہی کی کہ جب سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات اچھے ہوتے ہیں تو اس سے خطے میں پیش رفت حاصل کرنے میں مدد ملتی ہے۔

خاص طور پر موجودہ مسائل کے حل کے حوالے سے مدد ملنے کے امکان ہیان سے پوچھا گیا کہ عرب لیگ کے اجلاسوں میں پھر واپسی کو شام کس طرح دیکھتا ہے؟ تو جواب میں ایمن نے کہا کہ فطری بات یہ ہے کہ تمام عرب ممالک ایک دوسرے کے شانہ بشانہ ہوں تاکہ تمام عربوں کو درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کیا جا سکے اور ترقی سے متعلق مختلف چیلنجوں اور عرب قومی سلامتی کو مضبوط بنانے سے متعلق چیلنجوں کا جواب دیا جا سکے۔ آج ہم بلاکس اور ریاستوں کے دور میں رہتے ہیں چاہے ان کی جسامت کچھ بھی ہو۔

اگر کوئی ملک انفرادی طور پر آگے بڑھے تو اس کی تاثیر اور عمل کی فزیبلٹی بہت محدود رہتی ہے لیکن جب آپ اپنے بھائیوں پر بھروسہ کرتے ہیں تو صورتحال مختلف ہوجاتی ہے۔ ہم اس واپسی کو مفاہمت کے طور پر دیکھتے ہیں۔سعودی عرب اور ایران کے تعلقات کی بحالی کوشام کس نظر سے دیکھتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں ایمن نے کہا کہ ایران اور سعودی عرب ہمارے خطے کے دو بڑے ملک ہیں۔ ان کا بہت زیادہ وزن اور اثر و رسوخ ہے، لہذا جب دونوں ممالک کے درمیان تعلقات اچھے ہوں تو اس سے خطے میں پیش رفت حاصل کرنے میں مدد ملتی ہے۔ خاص طور پر خطے کے بعض مسائل کو حل کرنے کے معاملے میں تعاون ملتا ہے۔ سعودی عرب اور ایران کی مفاہمت کا اثر اس خطے کے ممالک کے طور پر ہمارے معاملات میں بیرونی مداخلت کو ختم کرنے پر پڑے گا۔

کیونکہ اس خطے کو جس سب سے مشکل چیز کا سامنا ہے وہ بیرونی مداخلت ہے۔شام کی سرزمین پر کنٹرول کرنے والے مسلح کرد دھڑے کے مخمصے سے شام کیسے نمٹے گا؟ اس سوال پر شام کے نائب وزیر خارجہ نے کہا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس تنظیم یا اس پروجیکٹ کے مالکان کو کس نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ میں تصدیق کرتا ہوں کہ شام میں کامیابی میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ بدقسمتی سے ان لوگوں نے خود کو شام میں امریکی منصوبے کا آلہ کار تسلیم کیا ہے۔ امریکی موجودگی کے بغیر ان کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ ان افراد نے امریکہ کے لیے ہتھیار بننے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ یہ منصوبہ شام کے اتحاد پر ضرب لگانے کے لیے ہے۔کیا آستانہ عمل کو ختم کرنے کے لیے امریکی دبا ہے ؟ اس استفسار پر انہوں نے کہا میں چیزوں سے آگے نہیں بڑھنا چاہتا۔ آستانہ نے ڈی ایسکلیشن زونز کے ذریعے شام میں دہشت گردی کے رقبے کو کم کرنے کے معاملے میں بہت کچھ حاصل کیا ہے۔ اگر ترک فریق مفاہمت پر قائم رہتا تو اس حوالے سے زیادہ پیش رفت ہو چکی ہوتی۔

ہم قازقستان کی حکومت اور عوام کے شکرگزار ہیں۔ شام کو اس بحران پر قابو پانے میں مدد کرنے کے لیے آستانہ فارمولے کے بیس دور ہو چکے ہیں۔ ہم قازق حکومت کے فیصلے کا احترام کرتے ہیںکیونکہ ہمارے درمیان تاریخی تعلقات ہیں۔علیحدگی پسندوں کے منصوبے کا مقابلہ کرنے کے لیے ترکی اور شام کے فوجی تعاون کو حاصل کرنے کے امکان کے بارے میں کیا خیال ہے؟ اس سوال پر ایمن سوسان نے کہا میں آپ کو بتاتا ہوں کہ ہر اس چیز کا حصول بھی ممکن ہوتاہے جو بظاہر مشکل یا ناممکن نظر آرہی ہوتی ہے۔

ہم نے سیاست میں اس طرح سیکھا ہے لیکن اس کو حاصل کرنے کے لیے کچھ تقاضے ہیں جن کو پورا کرنا ضروری ہے۔ ان میں سے پہلی شرط ترکی کی منظوری ہے۔ ایک ٹائم ٹیبل کے مطابق شام کی سرزمین سے مکمل انخلا بھی ضروری ہے۔ جب یہ چیزیں حاصل ہو جائیں گی تو ترکی کے ساتھ مختلف قسم کے تعاون کے لیے ایسے میدان کھلے ہوں گے جس سے دونوں ملکوں کی قومی سلامتی کو فائدہ پہنچے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں