عرفان صدیقی

آنے والے انتخابات میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) میں انتخابی اتحاد خارج از امکان ہے،سینیٹر عرفان صدیقی

اسلام آباد (گلف آن لائن)پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما سینیٹر عرفان صدیقی نیکہا ہے کہ ملکی سیاست کی دو بڑی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی میں سیاسی اختلاف کے ساتھ ساتھ مثبت تعلق بھی رہا ہے، پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم کی جماعتیں جنرل قمر جاوید باجوہ کو آرمی چیف کے عہدے پر مزید توسیع دینے پر آمادہ ہو گئی تھیں لیکن نواز شریف نے اس کی نہ صرف مخالفت کی بلکہ انتہائی سخت موقف بھی اختیار کیا، آنے والے انتخابات میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) میں انتخابی اتحاد خارج از امکان ہے۔

نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ نوازشریف کی دوبئی آمد کے بعد مریم نواز، آصف زرداری اور بلاول بھٹو بھی دبئی پہنچ چکے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کی ایک طویل تاریخ رہی ہے، یہ ایک دوسرے کی سخت مخالف رہی ہیں، خاص طورپر انتخابات اور سیاست کے میدان میں بڑی تلخ تاریخ رہی ہے تاہم تلخ تاریخ کے ساتھ ساتھ ان کی ایک مثبت تاریخ بھی ہے جو شروع ہوتی ہے میاں نواز شریف کے دوسرے دور سے جب محترمہ بینظیر بھٹو قائد حزب اختلاف تھیں۔

پھر تیرہویں اور چودھویں ترامیم ہوئیں پھر میثاق جمہوریت ایک بہت بڑی پیش رفت تھی،بہت سے لوگوں کو علم نہیں کہ میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے درمیان بہت اچھے مراسم قائم ہوگئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ محترمہ بینظیر بھٹو نے اپنی شہادت سے پہلے اپنی سیکرٹری ناہید خان کو کہاکہ میری فون پر نواز شریف سے بات کرائیں تاہم کسی وجہ سے وہ بات نہیں ہوسکی،الغرض دونوں جماعتوں کی متحارب تاریخ بھی ہے اوربڑی مثبت تاریخ بھی ہے اب دوبئی میں نوازشریف، مریم نواز، آصف زرداری اوربلاول موجود ہیں یعنی مستقبل کی جوان قیادت بھی موجود ہے اور سینئر لیڈر شپ بھی،نواز شریف کو علاج کیلئے بیرون ملک بھیجنے کے حوالے سے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ نواز شریف کی جو بیماری سامنے آئی، اس پر اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے اپنے اعتماد کے ڈاکٹرفیصل کو انکوائری پر لگایا اورانہوں نے بھی نواز شریف کی شدید بیماری کی تصدیق کی اور کہاکہ اس کو سیاسی ایشو نہیں بنانا چاہیے تھے۔

جیل میں پڑے پڑے ان کی صحت کے کئی مسائل پیدا ہوگئے تھے جس پر فوجی قیادت کو بھی تشویش تھی سو کہا جاسکتا ہے کہ یہ فوج اور اس وقت کی حکومت کا مشترکہ فیصلہ تھا۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے انکشاف کیا کہ نومبر 2022 میں تحریک انصاف اور پی ڈی ایم کی دیگر جماعتیں جنرل قمر جاوید باجوہ کو آرمی چیف کے عہدے پر ایک اور ایکسٹینشن دینے پر آمادہ گئی تھیں تاہم جب یہ پیغام سابق وزیراعظم نواز شریف تک پہنچا تو نواز شریف اس فیصلے کے سامنے دیوار بن گئے۔

میاں نواز شریف نے خود مجھے بتایا کہ ایکسٹنشن کے لئے حکومت کو دھمکیاں بھی ملیں اور کہا گیا کہ مارشل لاء بھی لگ سکتا ہے تاہم نواز شریف اپنی بات پر قائم رہے۔ عرفان صدیقی نے کہا کہ سینیارٹی لسٹ میں جنرل عاصم منیر نمبر ایک پر تھے۔ نوازشریف نے کہا کہ نمبر ایک پہ جو بھی ہے، اسے آرمی چیف بنا دیا جائے۔ جنرل باجوہ موجودہ آرمی چیف کی تقرری کے حامی نہیں تھے اور انہوں نے اپنے پسندیدہ امیدوار کے بارے میں خاصا دباؤ بھی ڈالا تھا لیکن میاں نواز شریف نے یہاں سٹینڈ لیا اور کہا کہ آرمی چیف کی تقرری کا اختیار وزیراعظم کا ہے جو دیگر جماعتوں سے مشاورت سے استعمال کریں گے۔

آپ کو یاد ہو گا کہ اس دوران ‘سمری آرہی ہے، نہیں آرہی ہے’ ایسی کہانیاں بھی چلتی رہیں لیکن میاں نواز شریف کا فیصلہ اٹل رہا۔ ایک سوال پر سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان انتخابی اتحاد خارج از امکان ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں