شہبازشریف

آئی ایم ایف سے معاہدہ ہونا لمحہ فخریہ نہیں لمحہ فکریہ ہے، خدا کرے دوبارہ اس کے پاس نہ جانا پڑے’ شہباز شریف

لاہور( گلف آن لائن)وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہونا کوئی لمحہ فخریہ نہیں بلکہ لمحہ فکریہ ہے، قوم دعا کرے کہ یہ آخری مرتبہ ہو کہ پاکستان قرض لے رہا ہو اور اس کے بعد خدا کرے کہ ہمیں آئی ایم ایف کے پاس نہ جانا پڑے،آئی ایم ایف سے پیرس میں ہونے والی میٹنگ ٹرننگ پوائنٹ تھی جس کے بعد اسٹاف لیول کا معاہدہ ہوگیا ہے جو کہ بورڈ کی میٹنگ کے حوالے سے بہت بڑی سیڑھی ہے کیونکہ 12 جولائی کو بورڈ کی میٹنگ ہوگی جس کے لیے 3 ارب ڈالر کا اسٹینڈ بائے ایگری منٹ بنایا گیا ہے جو کہ 9 ماہ کا پروگرام ہے،گزشتہ 3 ماہ میں چین نے پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچایا اور ان تین چار ماہ میں ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچانے میںکلیدی کردار ادا کیا ہے جبکہ سعودی عرب نے 2 ارب ڈالر کا وعدہ کیا اس پر معاہدہ ہو چکا ہے اسی طرح متحدہ عرب امارات اور اسلامی ورلڈ بینک نے ایک ،ایک ارب ڈالر دینے کا وعدہ کیا،

سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے قرض کے حصول کے لیے جہاں ہماری حکومت کی کوشش ہے وہیں نئے سپہ سالار کی بھی بڑی کوشش ہے جنہوں نے آگے بڑھ کر مدد کی اور ان ممالک سے روابط کیے اسی طرح وزیر خارجہ نے بھی بھرپور سفارت کاری کی،سری لنکن صدر نے بھی ہماری مدد کی،سابقہ حکمرانوں نے پاکستان کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، یہاں تک کہا کہ پاکستان سری لنکا بننے جا رہا ہے، آئی ایم معاہدے کے خلاف دوصوبوں کے وزرائے خزانہ کو خطوط لکھنے کا کہا، میں بتانا چاہتا ہوں کہ 9 مئی کے واقعات بھی اس سازش کی کڑی ہے، یہ اس سے جڑی ہوئی ہے، یہ پاکستان کی تاریخ کا تاریک ترین دن تھا،سابقہ حکومت نے معیشت کو بری طرح سے تباہ کیا، اسی طریقے سے فتنہ سازی کی گئی،

سورش پیدا کی گئی اور پاکستان کو سیاسی غیرمستحکم کرنے کے لیے زور لگایا گیا اور دن رات بیانیے بنائے گئے، پاکستان کی ترقی و خوشحالی کو ختم کرنے کے لیے سازشیں کی گئیں اور پاکستان کو بدنام کرنے کا کوئی طریقہ نہیں چھوڑا گیا ،باہر ممالک اور اداروں کو خبردار کیا گیا کہ اگر آپ نے پاکستان کی مدد کی تو امپورٹڈ حکومت سب کچھ برباد کردے گی۔ ان خیالات کا اظہار انہوںنے گورنر پنجاب محمد بلیغ الرحمان ، وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور دیگر کے ہمراہ گورنر ہائوس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا ۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ عوام پر تکالیف، معاشی بوجھ کی وجہ جاننا ضروری ہے،ایثار اور قربانی کا جذبہ خاندانوں اور قوموں کو مشکلات سے پاک کرتا ہے، قومی یکجہتی اور یکسوئی اور محنت ایسے عوامل ہیں جو قوموں کو مشکلات سے نکالتے ہیں۔

2018 تک پاکستان نواز شریف کی قیادت میں بہت تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن تھا اور ہمارے بدترین ناقدین کو بھی اس پر اختلاف کرنے کی جرات نہ تھی کیونکہ اس وقت ہماری ترقی کی شرح 6.2 تھی اور پاکستان دنیا کی تیزی سے ترقی کرتی معیشتوں میں شمار ہونے لگا۔نواز شریف کی قیادت میں بڑی تیزی سے سی پیک معاہدے پر عمل ہوا، بجلی کے منصوبے مکمل ہوئے، پن بجلی کے منصوبوں پر کام شروع ہوا، سڑکوں کا جال بچھایا گیا اور شمسی توانائی سے منصوبے لگائے گئے،

پاکستان دوسری قوموں کے ساتھ تیزی سے اس دوڑ میں بھاگ رہا تھا پھر بدترین دھاندلی کے ذریعے عمران نیازی کو اقتدار کے منصب پر زبردستی بٹھایا گیا اور 2018 تاریخ کا بدترین الیکشن تھا اور پھر اس کے نتیجے میں کیا ہوا کہ پہلے آئی ایم ایف کے ساتھ گفتگو میں اتنی ہچکچاہٹ دکھائی کہ اس میں 6 ماہ لگ گئے کہ گفتگو کرنی ہے یا نہیں کرنی اور جب معاہدہ ہوا تو سنگ دلی کے ساتھ اس کی دھجیاں اڑائی گئیں اور پاکستان کے وقار کو خاک میں ملانے کی ناپاک کوشش کی گئی جس کے نتیجے میں عالمی اداروں کا ہم پر سے اعتماد اٹھ گیا۔وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ عالمی وبا ء کورونا کے دوران پوری دنیا میں تباہی آئی لیکن اس دوران جن چیزوں کو حاصل کیا جا سکتا تھا وہ بھی مجرمانہ غفلت کی وجہ سے گنوائی گئی، مثلاًگیس 3 ڈالر پر آگئی تھی مگر اس کے باجود بھی اس کا سودا نہیں کیا گیا،

آج بڑی محنت کے بعد آذربائیجان کے ساتھ گیس کا معاہدہ کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ مخلوط حکومت نے حتی الامکان بہتری کی کوشش کی، انسان ہیں ہم سے بھی ضرور غلطیاں ہوئی ہوں گی، لیکن جان بوجھ کر قومی خزانے میں خیانت نہیں کی گئی، اگر کوئی ایسی مثال ہے تو میرے سامنے رکھیں میں اس پر انکوائری کروں گا، اس 14 ماہ میں ہم نے جو گندم یا کھاد خریدی وہ سب سے کم بولی دینے والوں سے خریدے گئے جس میں اربوں روپے کی بچت ہوئی۔انہوں نے کہا کہ پیرس اجلاس میں سری لنکا کے صدر نے آئی ایم ایف سربراہ سے ملاقات کرانے میں مدد کی لیکن یہاں دوست نما دشمن پاکستان کو سری لنکا بنانے کی باتیں کر رہے تھے۔اس سے قبل میری آئی ایم ایف کے ساتھ ٹیلی فون پر ایک ایک گھٹنے سے زیادہ گفتگو ہوئی،

خطوط لکھے اور اسحق ڈار اور ان کی ٹیم نے شرائط پوری کرنے کی بھرپور کوشش کی، اسٹیٹ بینک سمیت دیگر اداروں نے حصہ ڈالا لیکن اس کے باجود بھی بات نہیں بن رہی تھی لیکن پھر پیرس میں آئی ایم ایف سربراہ سے طویل ملاقات ہوئی۔ملاقات کے دوران آئی ایم ایف سربراہ نے کہا کہ اب 30 جون قریب ہے وقت نہیں رہا، پھر میں نے ان سے کہا کہ ہم نے آپ کی کون سی شرط تسلیم نہیں کی، ہم سب نے اپنا سیاسی سرمایہ دا ئوپر لگالیا ہے صرف اس لیے کہ پاکستان کو دیوالیہ ہونے نہ دیں اور پاکستان کے استحکام کے لیے ہم نے کڑوے فیصلے کیے ہیں۔آئی ایم ایف سربراہ نے کہا کہ 2 ارب ڈالر کے گیپ کا کیا ہونا ہے جس کے بعد میں نے اسحق ڈار سے رابطہ کیا اور کہا کہ پاکستان کے مستقبل کا معاملہ ہے کچھ کریں،

مجھے وہاں پتا چلا کہ اسلامک ورلڈ بینک کے چیئرمین آئے ہوئے اور میں نے اپنے سفیر کے ذریعے ان کو ملاقات کے لیے پیغام بھیجا اور ان سے ملاقات کرکے 2 ارب ڈالر دینے کی درخواست کی جس کے بعد انہوں نے واپس جاکر ایک ارب ڈالر کا اعلان کیا۔آئی ایم ایف سے پیرس میں ہونے والی میٹنگ ٹرننگ پوائنٹ تھی جس کے بعد اسٹاف لیول کا معاہدہ ہوگیا ہے جو کہ بورڈ کی میٹنگ کے حوالے سے بہت بڑی سیڑھی ہے کیونکہ 12 جولائی کو بورڈ کی میٹنگ ہوگی جس کے لیے 3 ارب ڈالر کا اسٹینڈ بائے ایگری منٹ بنایا گیا ہے جو کہ 9 ماہ کا پروگرام ہے۔وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ اس حوالے سے آئی ایم ایف سربراہ اور ان کی ٹیم کا شکرگزار ہوں جنہوں نے پیرس ملاقات میں سنجیدگی دکھائی جبکہ میں پاکستان میں وزیر خزانہ اسحق ڈار اور ان کی ٹیم کا انتہائی شکر گزار ہوں جو کئی راتوں تک جاگتے رہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ کوئی لمحہ فخریہ نہیں بلکہ لمحہ فکریہ ہے ،قرضوں سے قومیں بستی اور خوشحال ہوتی ہیں ؟ایسا کبھی نہیں ہوتا یہ قرض ہمیں مجبوری میں لینا پڑ رہا ہے اور میں تمام پاکستانیوں سے کہتا ہوں کہ دعا کریں یہ آخری مرتبہ ہو کہ پاکستان قرض لے رہا ہو اور اس کے بعد خدا کرے کہ ہمیں آئی ایم ایف کے پاس نہ جانا پڑے۔انہوں نے کہا کہ ہمسایہ ملک نے 1991 میں آخری بار آئی ایم ایف سے معاہدہ کرکے اس کو خیرآباد کہہ دیا جبکہ ترکیہ نے 2007 میں معاہدہ کے بعد خیرآباد کہہ دیا لیکن ہم پتا نہیں کتنی بار آئی ایم ایف کے پاس گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ 3 ماہ میں چین نے پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچایا اور ان تین چار ماہ میں ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچانے میںکلیدی کردار ادا کیا ہے جبکہ سعودی عرب نے 2 ارب ڈالر کا وعدہ کیا اس پر معاہدہ ہو چکا ہے اسی طرح متحدہ عرب امارات اور اسلامی ورلڈ بینک نے ایک ،ایک ارب ڈالر دینے کا وعدہ کیا۔

وزیراعظم شہباز شریف کہا کہ اب یہ زندگی گزارنے کا طریقہ نہیں ہے، جب میں برادر ممالک سے ملتا ہوں تو وہ سمجھتے ہیں چائے پی لی ہے اب شہباز شریف قرضوں کی بات کریں گے۔انہوں نے کہا کہ اللہ کے فضل سے پاکستان دیوالیہ ہونے سے بچ گیا ہے، دیوالیہ ہونے کے امکانات کم تھے لیکن نگران حکومت میں کیا ہوتا اور اگر خدانخواستہ دیوالیہ ہوجاتا تو میں خود کو معاف نہیں کر سکتا۔انہوں نے کہا کہ 9 مئی کو جو کچھ ہوا، وہ پاکستان کو تباہ کرنے کی گھنائونی سازش تھی، جس میں اندر اور باہر سے دوست نما دشمن بھی شامل تھے، انہوں نے 9 مئی کی سازش کی تاکہ نہ آئی ایم ایف کا پروگرام ہو اور نہ کچھ اور ہو، ملک ڈیفالٹ کرجائے، یہاں پر تباہی ہوجائے، انارکی ہوجائے۔وزیراعظم نے وضاحت کی کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے قرض کے حصول کے لیے جہاں ہماری حکومت کی کوشش ہے وہیں نئے سپہ سالار کی بھی بڑی کوشش ہے جنہوں نے آگے بڑھ کر مدد کی اور ان ممالک سے روابط کیے اسی طرح وزیر خارجہ نے بھی بھرپور سفارت کاری کی۔

انہوں نے کہا کہ قرضوں سے نکلنے کے پیش نظر زراعت کے لیے ہم نے جامع پروگرام بنایا ہے جبکہ آئی ٹی سیکٹر میں بھی اربوں روپے کی ایکسپورٹ کر سکتے ہیں ان اہداف کے لیے ماسٹر پلان بنایا ہے جس کو ریوائول آف پاکستان بھی کہتے ہیں۔وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ میرا ایمان ہے کہ پاکستان ترقی کرے گا اور ہماری ترقی کو کوئی نہیں روک سکتا، لہٰذاہم نے یہ ماسٹر پلان بنایا ہے جس سے 40 لاکھ نوجوانوں کو روزگار ملے گا اور سب محنت و ایثار سے ہوگا۔وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ نواز شریف جلد وطن واپس آئیں گے اور پارٹی سمیت ملک کی باگ دوڑ سنبھالیں گے، مسلم لیگ (ن)عوامی ریلیف کیلئے اقدامات کرتی رہے گی، سانحہ نو مئی میں ملوث کوئی بھی شخص قانون سے نہیں بچ سکے گا، آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کے بعد کسی بھی قسم کا ابہام نہیں ہونا چاہیے، بے گناہ لوگوں پر کوئی آنچ نہیں آئے گی البتہ جو اس میں ملوث تھے وہ کسی صورت نہیں بچ سکیں گے۔

جن لوگوں نے سویلین املاک پر حملے اور توڑ پھوڑ کی ان کے خلاف انسداد دہشتگردی جبکہ فوجی املاک پر حملے کرنے والوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلیں گے، 9 مئی جیسی ملک دشمنی کی مثال دنیا کی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی، ایسا نہیں ہو گا کہ ہم کسی بھی وجہ سے ملزمان کیلئے نرم گوشہ رکھیں، اگر ایسا ہوا تو پھر شرپسندوں کو مزید شہ مل جائے گی۔انہوںنے کہا کہ دفاعی سامان ایکسپورٹ کرنے کیلئے ماسٹر پلان بنایا ہے، معیشت کی بحالی کیلئے سیاسی دفاعی ادارے صوبائی حکومتیں بھی شامل ہیں اس کیلئے عدلیہ مقننہ وفاقی حکومت تعلیمی اداروں ری سرچ سنٹرز کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، اگر قرضوں سے ملک کو باہر نکالنا ہوگا تو اس کیلئے گلف ممالک کے ساتھ تجارت کرنا ہوگی، معدنیات کو فائنل پروڈکٹ بناکر ایکسپورٹ کریں ، گلف سے تجارت پر چالیس لاکھ لوگوں کو روزگار ملے گا ،قرضوں سے توبہ کرنا ہوگی جو قرآن کریم نے سکھایا ہے۔

شہباز شریف نے کہا کہ چین کی دوستی ہمالیہ سے بلند ہے پچھلی حکومت نے دوستی کو نقصان پہنچایا ،چین نے پانچ ارب ڈالر کے قرضے روول اوور کر دئیے ،سی پیک آگے بڑھے گا ،چین کے نئے وزیر اعظم سے پیرس میں ملاقات ہوئی ہے چین تعلقات میں کوئی کمزوری نہیں آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ اشرافیہ کو قربانی دینا ہوگی ،الیکشن میں کسی اور یا ہمیں اقتدار کا موقع ملا تو عوام کے مسائل حل کریں گے۔ انہوںنے کہا کہ ہٹلر اور عمران خان میں کوئی فرق نہیں ایک اینٹ نہیں لگائی جو بنا تھا اسے تباہ کر دیا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ -آئی ایم ایف پروگرام کھیر یا مٹھائی نہیں معیشت کو استحکام دینے کیلئے ہے ،سختیاں ہوں گی سب سے زیادہ سختیاں اشرافیہ کو برداشت کرنا ہوگی، جب اشرافیہ پر سپر ٹیکس لگا تو ان کی چیخیں نکل گئیں مجھ سے بات کی لیکن کسی کی نہیں سنی، ہر چیز کا پلان بی ہوتا ہے اگر بارشیں نہ ہوئیں تو پانی کا ذخیرہ کرنا ہوگا تھرمل بجلی کے منصوبے چلانا ہوگا، زراعت معدنیات سمال میڈیم انٹر پرائز ایکسپورٹس سے ہی گلف ممالک سے سرمایہ کاری آئے گی، ہوائی فائر نہیں کرنے چاہئیں ریاست مل کر کام نہیں کرے گی ملک آگے نہیں بڑھے گا، مہنگائی ہے اس سے انکاری نہیں وگرنہ خود کو دھوکہ دینے والی بات ہوگی۔

انہوںنے کہا کہ نوازشریف جیلیں بھگتے رہے بالٹی پہن کر نہیں آئے نوازشریف بالٹی نہیں پہنتے رہے، بشیر جج کی عدالت میں نواز شریف نے بیٹی کے ساتھ پیشیاں بھگتی ہیں، ہماری بیٹیوںکو عدالتوں میں گھسیٹ کر لے کر گئے ،نوازشریف علاج کیلئے گئے جلد ملک میں آکر پیش ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ فارن فنڈنگ توشہ خانہ کیس میں جعلی رسید دی گئی یہ ساری اس کی کرتوت ہے جو ہمیں چور ڈاکو کہتا رہا،نوازشریف کی قیادت میں (ن)لیگ یکسو ہے پورا یقین ہے اتحادی حکومتیں بھی ایسی سوچ رکھتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ اسلام آباد ائیرپورٹ کو اگست کے شروع میں شفاف طریقے سے آئوٹ سورس کردیں اس کا فائدہ خزانے کو ہوگا، الیکشن میں جو بھی حکومت آئے ایکسپورٹس انفارمیشن ٹیکنالوجی سے آگے بڑھے گا،خارجہ پالیسی وہی ہوگی جو پاکستان کے بہترین مفاد میں ہے، دوست ممالک کے تعاون سے سرمایہ کاری کو بڑھائیں گے بڑی طاقتوں کو ناراض نہیں کریں گے۔

انہوںنے کہا کہ نو مئی کے واقعات میں ملوث کوئی قانون کے شکنجے سے نہیں بچ سکے گا ،آئی ایس پی آر بیان کے بعد کسی کو کوئی کنفیوژن نہیں ہونی چاہیے ۔جو لوگ نو مئی کے واقعہ میں ملوث نہیں انہیں کسی صورت سزا نہیں ہوگی، وقت آئے گا دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوگا ، یہ کہاں کی حب الوطنی ہے کہ پاکستان کے اندر اور باہر سے گماشتوں کو کہیں فوج کو اسلحہ نہ دیں اس لئے کیونکہ وہ بات نہیں مانتے،کیا کوئی محب وطن زہریلی لابنگ کر سکتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ کمیشن کی رپورٹ مکمل ہوگئی ہے کہ کس نے ملک کا قرضہ بڑھایا، اس حکومت کی مدت پوری ہوگی تو حکومت چھوڑ دیں گے الیکشن کا اعلان الیکشن کمیشن کا کام ہے۔

وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پیرس میں آئی ایم ایف کے ساتھ بریک تھرو حاصل کرنے کا سہرا وزیر اعظم کو دیتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف بورڈ کے جولائی میں ہونے والے اجلاس کے تین سے چار دنوں میں پاکستان کے لیے ایک ارب 18 کروڑ ڈالر جاری کر دئیے جائیں گے،اسٹینڈ بائی انتظام پاکستان کا آئی ایم ایف کے ساتھ 30 واں پروگرام ہے۔انہوںنے کہا کہ پاکستان کا 9 واں ریویو 30 ستمبر 2022 والا تھا، پہلے 3 ماہ تاخیر ہوئی وہ وزٹ نہیں کر سکے، 9 فروری کو ٹیکنیکل ریویو مکمل ہو گیا تھا، بجٹ تقریرمیں کافی پریشان تھا کہ مزید 215 ارب کے کا ٹیکس لگا دوں، سوچا تھا کہ ٹیکس لگا دوں اور پروگرام بھی نہ ہوا تو کیا ہوگا، وزیر اعظم نے کہا پروگرام نہ ہوا تو ہم واپس لے لیں گے۔ہمارا یہ پروگرام 9 ماہ کیلئے ہے جس میں 3 ارب ڈالر ملیں گے، 12 جولائی کو بورڈ میٹنگ طے ہو گئی ہے،

آئی ایم ایف نے کہا 6 بلین ڈالر کا ٹارگٹ پورا کریں، اگر 9 واں ریویو ہو جاتا تو 10 واں اور 11 واں نہیں ہونا تھا، وزیر اعظم نے آئی ایم ایف سے 1 یا 2 ماہ بڑھانے کا کہا تو منع کر دیا گیا، ہم چاہتے تھے یہ پروگرام 9 ماہ سے زائد کا نہ ہو، گزشتہ 48 گھنٹے میں یہ پروگرام 9 ماہ کا ہو گیا۔اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف کے 22 پروگرام مکمل نہیں کر سکا، 2013 سے 16 کا ایک پروگرام تھا جو نواز شریف کی قیادت میں مکمل ہوا، کچھ لوگ مایوسی پھیلا رہے تھے، کہتے تھے پاکستان ڈیفالٹ کرے گا، نواز شریف کے وقت سٹاک مارکیٹ 100 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی تھی، آج سٹاک مارکیٹ کی ویلیو 22 ارب ڈالر ہے،

گزشتہ حکومت میں پاکستان کو بے پناہ معاشی نقصان ہوا، ایک تجربے سے پاکستان کو اقتصادی طور پر بہت بڑا نقصان ہوا۔انہوںنے کہا کہ کچھ عناصر ملک کے ڈیفالٹ ہونے کی افواہیں پھیلا رہے ہیں، ایسے لوگوں کو جواب دیا جانا چاہیے، پاکستان دیوالیہ ہونے والا ملک نہیں ہے، یہ ملک کبھی ڈیفالٹ نہیں ہو گا، اگر خدانہ خواستہ آئی ایم ایف پروگرام نہ بھی ہوتا تو بھی ہم پلان بی کے لیے متحرک تھے۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے معیشت کو مستحکم کیا اور اب وقت آگیا ہے کہ شرح نمو کو بڑھانے پر توجہ دی جائے،حکومت اپنی مدت کی تکمیل تک ملک کے غیر ملکی ذخائر کو 14سے15 ارب ڈالر تک لے جائے گی۔

انہوںنے کہا کہ آئی ایم ایف معاہدہ کے لیے وزیراعظم کی کاوشیں قابل تحسین ہیں، معاہدہ کے دوران مشکلات آئیں مگر اللہ تعالی نے کامیاب کیا۔گزشتہ 10 روز میں معاہدے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کو آمادہ کیا، پاکستان کے اندر بھی اور پاکستان کے باہر بھی لوگ یہ مایوسی پھیلاتے رہے ہیں کہ کہ ملک ڈیفالٹ کرے گا اور وہ یہ بھی کہتے رہے کہ یہ ایک ارب ڈالر بانڈ ادا نہیں کر سکیں گے تاہم شہباز شریف کی وزارت عظمی کے دور میں بانڈ ادا ہوا۔انہوں نے کہا کہ نہ ہم نے بانڈ کی ادائیگی میں تاخیر کی اور نہ پیرس کلب سے رجوع کیا، ہم نے ہر ادائیگی وقت پر کی ہے، اس کے لیے اللہ تعالی کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ دور حکومت میں پاکستان کو معاشی طور پر نقصان پہنچایا گیا، کچھ لوگ ڈیفالٹ کی گمراہ کن افواہیں پھیلاتے رہے،

ان شااللہ پاکستان کو دوبارہ 24ویں معیشت بنائیں گے۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم اور حکومت نے بجٹ میں جو وعدے کئے ہیں ان تمام پر سرعت کے ساتھ عملدرآمد کیا جائے گا۔انہوںنے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ میں وزیراعظم نے قائدانہ کردار ادا کیا جبکہ طارق باجوہ سمیت وزارت خزانہ کی ٹیم، سیکرٹری خزانہ امداد اللہ بوسال، علی طاہر اور وزیر مملکت خزانہ عائشہ غوث، گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد، ایف بی آر کی ٹیم بشمول طارق پاشا نے بھی معاہدہ میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا، انہوں نے سابق سیکریٹری خزانہ حامد شیخ کے کردار کو بھی سراہا،پوری ٹیم کی مشترکہ کاوشوں سے آئی ایم ایف معاہدہ ہوا، پاکستان ڈیفالٹ ہو گا نہ ہم ہونے دیں گے،پلان بی بھی یہی تھا کہ ہم نے ڈیفالٹ نہیں کرنا ، ہماری پہلی ترجیح یہ رہی ہے کہ پاکستان کے وقار اور نام پر حرف نہیں آنے دینا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اکثر نظرثانی شدہ بجٹ اہداف پورے نہیں ہوتے لیکن چند دن پہلے پاکستان کی تاریخ کا ایک نیا ریکارڈ قائم کیا، 7151ارب روپے کا ایک نیا ریکارڈ ایف بی آر نے حاصل کیا،مالی سال 2023-24 کے دوران پٹرولیم لیوی کی اوسط 55روپے ہو گی جبکہ اس کی حد 60روپے مقرر کی گئی ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ ہمیں اپنے وسائل کے اندر رہنا چاہئے، ہم نے گز شتہ پانچ سال میں اپنے بیرونی وسائل سے زیادہ اخراجات کئے ہیں جہاں ملک میں جمہوریت ضروری ہے وہیں مالیاتی ڈسپلن بھی ضروری ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں