جیمز کلیورلی

سعودی عرب سے معاہدے سے ایران کے رویے میں تبدیلی آئے گی:برطانوی وزیرخارجہ

لندن(گلف آن لائن)برطانوی وزیر خارجہ جیمز کلیورلی نے کہا ہے کہ برطانیہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان حالیہ مفاہمت کا خیرمقدم کرتا ہے اور امید کرتا ہے کہ اس سے خطے میں تہران کے رویے میں تبدیلی آئے گی۔انھوں نے عرب ٹی وی سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم مذاکرات کا خیرمقدم کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ ایران کے ساتھ سعودی عرب کی بات چیت اور ملاقاتوں سے رویے میں تبدیلی آئے گی لیکن بالآخر انتخاب تہران کی قیادت کا ہے۔

سعودی عرب اور ایران نے مارچ چین کی ثالثی میں سفارتی تعلقات کی بحالی کے معاہدے کا اعلان کیا تھا۔ان کے درمیان سات سال تک سفارتی تعلقات منقطع رہے تھے۔انھوں نے کہا کہ برطانیہ چاہتا ہے کہ ایران خطے میں مسلح گروپوں بشمول یمن میں حوثیوں کی حمایت اور اسلحہ بند کرے۔ اگر سعودیوں اور ایرانیوں کے درمیان یہ بات چیت اس کا باعث بن سکتی ہے تو یہ مثبت پیش رفت ہوگی۔

برطانوی وزیرخارجہ نے کہا کہ لندن سعودی عرب اور ایران کے درمیان چین کی ثالثی کو ایک مثبت اقدام کے طور پر دیکھے گا بشرطیکہ بیجنگ ایران کو اپنے ہمسایوں کے خلاف اپنی معاندانہ پالیسیوں کو روکنے کی ترغیب دے۔انھوں نے کہاکہ آخر کار، ہم ان کے اقدامات سے معاملات کا فیصلہ کرتے ہیں اور ایران کے لیے معاہدوں پر دستخط کرنا آسان ہے اور یہ ایک ممکنہ مثبت قدم ہے، لیکن زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ایران اصل میں عملی طور پرکیا کرتا ہے، کیا وہ ان وعدوں کی پاسداری کرتا ہے، نیز کیا وہ زیادہ پرامن ہمسایہ بننے کو تیار ہے۔

انھوں نے لندن اورالریاض کے درمیان تعلقات کو مضبوط اور پختہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان میں دوطرفہ تجارت، سلامتی اور انسداد دہشت گردی سمیت مختلف شعبوں میں تعاون آنے والے برسوں میں مزید مضبوط ہوگا۔انھوں نے کہا کہ دنیا میں سعودی عرب کی ساکھ اور اثر و رسوخ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھنے والا ہے اور ہم اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ ہم سعودیوں کے قریبی شراکت دار بنے رہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ہم براہ راست معاملات پر بات چیت کرنے کے قابل ہیں اور میں نے سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان کے ساتھ اپنے تعلقات سے بہت لطف اٹھایا ہے۔جیمزکلیورلی نے انٹرویو میں برطانیہ میں مقیم ایران کے ناقدین کے خلاف سازشوں کو ختم کرنے کے تقاضے پر زوردیا اور ان کا مسئلہ اجاگر کیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم آزادیِ اظہار اور پریس کی آزادی کو اولین ترجیح دیتے ہیں، اس لیے ہم تہران سے کہتے ہیں کہ برطانیہ میں موجود ناقدین کے خلاف اپنی جارحیت بند کریں۔

کلیورلی کے مطابق، ایران نے 2022 کے اوائل سے اب تک برطانیہ میں مقیم افراد کو اغوا یا قتل کرنے کی 16 کوششیں کی ہیں۔انھوں نے برطانیہ کی جانب سے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات پر آمادگی کا اظہار کیا اور کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے طرز عمل میں تبدیلی لائی جانی چاہیے۔انھوں نے تہران کے اقدامات کے خلاف اپنے، برطانوی عوام اور اپنے مفادات کے دفاع کے لیے اقدامات کی اہمیت پر زور دیا۔ایران کی مشرق اوسط کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی تاریخ اور تہران کے خلاف پہلے سے عاید پابندیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے نئی پابندیوں کے بارے میں پوچھے جانے پر انھوں نے کہا کہ ایرانی حکومت کو بین الاقوامی پابندیوں کی وجہ سے ایرانی عوام کو درپیش معاشی دبا کو تسلیم کرنا چاہیے۔ یہ چیزیں بدلنے کے لیے ایرانی قیادت اپنے رویے پرنظرثانی کرسکتی ہے۔

وہ خطے اور اس سے باہر زیادہ ذمہ دار اداکار ہوسکتے ہیں اور اگر وہ اپنا رویہ تبدیل کرتے ہیں تو ہم اپنا ردعمل تبدیل کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے۔ہم ایران کو یہ پیش کش کرتے ہیں: اپنی سرحدوں کے اندر، خطے میں، اور برطانیہ اور ہمارے دوستوں کے خلاف ایک بہتر کردار بنیں اور ہم اپنا ردعمل تبدیل کرنے کے قابل ہوں گے۔انھوں نے کہا کہ ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی (آئی آر جی سی) کو کالعدم قرار دینا ایک ایسا آپشن ہے جس پر لندن ہمیشہ غور کرتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ ایسی چیز نہیں جو ہم نے اس وقت کی ہے، لیکن ہم نے پاسداران انقلاب پر مکمل پابندیاں عاید کر دی ہیں۔

ہم ہمیشہ آپشنز کھلے رکھتے ہیں اور ہمارا ردعمل ہمیشہ ایرانی کارروائی سے منسلک رہے گا اور اگر وہ چاہتے ہیں کہ ہمارا ردعمل تبدیل ہو تو اس کے لیے ان کے اپنے اقدامات کو تبدیل ہونا چاہیے۔ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں انھوں نے کہا کہ تہران کی جانب سے یورینیم کی افزودگی 2015 کے جوہری معاہدے کے تحت تہران کے وعدوں کی خلاف ورزی ہے۔انھوں نے کہا کہ ہم یہ واضح کرتے ہیں کہ ہم ایران کے ساتھ بات چیت کے خواہاں ہیں لیکن انھیں یہ سمجھنا ہوگا کہ جوہری ہتھیاروں کے حصول کی ان کی مسلسل کوششیں مکمل طور پر ناقابل قبول ہیں اور ہم اپنے بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر ایسا ہونے سے روکیں گے۔روس اور یوکرین کے درمیان تنازع کے حوالے سے ان سے پوچھا گیا کہ کیا چین صورت حال کو حل کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔

اس پر ان کا کہنا تھا کہ اگر چین روسی صدر ولادی میر پوتین پر ان کے طریقوں کی غلطیوں پر دبا ڈال سکتا ہے، اگر وہ پوتین پر جوہری جنگ کی دھمکی دینے کی مکمل عدم قبولیت پرزور دیتا ہے اور پوتین پر خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی اہمیت پر زور دے سکتا ہے جسے وہ بہت اہمیت دیتے ہیں تو میرے خیال میں یہ ایک مثبت قدم ہو سکتا ہے۔کلیورلی نے کہا کہ پوتین اس وقت کوئی حل قبول کرتے نظر نہیں آتے۔برطانیہ اقوام متحدہ کے چارٹر اور یوکرین کی خودمختاری کے اصولوں پر مبنی پرامن حل چاہتا ہے۔ اگر چین اس میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے تو ہم اس کا خیر مقدم کریں گے۔ان کا کہنا تھا کہ یوکرین کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ امن چاہتا ہے۔

انھوں نے بحران کے تک اپنے دفاع میں کیف کی مدد کے لیے لندن کے عزم پر زور دیا ، اور روس کے حملے میں یوکرین میں انسانی جانوں کے نقصان اور شہری بنیادی ڈھانچے کی تباہی پر افسوس کا اظہار کیا۔انھوں نے بتایا کہ یوکرین کے لوگ امن کے خواہاں ہیں لیکن انھوں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ صدرپوتین اب بھی جارحانہ توسیع پسندانہ عزائم رکھتے ہیں۔اس لیے ہم یوکرین کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں اور ہم اس وقت تک ایسا ہی کریں گے جب تک کہ یہ مسئلہ کامیابی سے حل نہیں ہو جاتا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں