لڑتے لڑتے جب سب تھک جائینگے تو سب کو مل کر بیٹھنا پڑے گا’ خواجہ سعد رفیق

لاہور(گلف آن لائن)وفاقی وزیر ریلوے و ہوا بازی خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ہم چند سال کے بعد سیاسی استحکام کی طرف جائیں گے ،لڑتے لڑتے کچھ تھک گئے ہیں اور جو رہ گئے ہیں وہ بھی تھک جائیں گے ،جب سب تھک جائیں گے تو سب کو مل کر بیٹھنا پڑے گا جب تک سب مل کر نہیں بیٹھیں گے ،سیاستدان اورادارے مسائل کا حل نہیں نکالیں گے ہم دائرے میں سفر کرتے رہیں گے ، پاکستان کو آگے جانا چاہیے ،پاکستانیوں کا مقدر بھوک غربت اور نا انصافی نہیں ہے ، مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں پاکستان کے فیصلہ ساز پاکستان کے پالیسی میکر زاور حکمران طبقات قوم کو انصاف نہیں دے سکے ، ہم اپنے سے سو گنا چھوٹے ممالک کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہیں،جب پیسے مانگنے کے لئے دوسروں ملکوں کے پاس جاتے ہیں تو دل کرتا ہے زمین پھٹ جائے اور ہم اس میں چلے جائیں ، بھیک مانگیں گے تو کیا گرین پاسپورٹ کی عزت ہو گی ، یہ ہمارا قومی تضاد ہے جسے دور کرنا ہے ،اس کو دور کرنا پہلے سیاستدانوں کا کام ہے پھر ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے ۔

ان خیالات کا اظہار لاہور میں لیپ ٹاپ تقسیم کرنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ پاکستان آج نہایت مشکل دور سے گزر رہا ہے ، ہم بہت بڑے بحرانی دور سے گز ررہے ہیں،یہ میک اینڈ بریک کا دور ہے ،خدا نہ کرے ہم دوبارہ ٹوٹ جائیں، ہمیں دوبارہ ٹوٹنا نہیںہے ، ہم 24کروڑ ہو گئے ہیں،چھ سال میں 4کروڑ بڑھ گئے ہیں، ہمارے بے پناہ مسائل ہیں ، ہم تمام تر کوشش کے باوجود لوگوں کو پینے کا صاف پانی نہیں دے سکے ، ہماری بستیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، طالبان کل آئے ہیں ان کے طرز حکمرانی سے سو اختلاف ہوسکتے ہیں لیکن انہوں نے بھی ترقی کرنا شروع کر دی ہے ، ایتھوپیا ایک مثال ہے ،اس کا ریفرنس غربت بھوک اور قحط تھا لیکن انہوںنے 25سالوں میں اپنے ملک کو ٹرن ارائونڈ کر دیا ، بھارت کو تو چھوڑ ہی دیں ،وہ تو بہت آگے نکل گیا ہے .

بنگلہ دیش کہتے ہوتے ہوئے زبان لڑکھڑاتی ہے ،71میں ہم الگ ہوئے لیکن وہ آج کہاں سے کہاں سے جا پہنچے ہیںاور ہم کہاں ہیں ،ہماری آپس کی لڑائی نے ہمیںکہیں کا نہیں چھوڑا ، انتقال اقتدار کی لڑائی،مارشل لاء جو بار بار کبھی اعلانیہ اور کبھی نقاب پوش آتے رہے انہوں نے ملک کانقصان کیا ، مارشل لائوں کے نتیجے میں آنے والی سیاسی قیادت جسے سمجھتے ہوئے دس پندرہ سال لگ جاتے ہیں اس میں وقت کا بہت ضیاع ہوتا ہے ، سچ یہی ہے ، لیکن ساری مشکل میں سے امید کے پہلو بھی موجود ہیں،پاکستانیوں نے جہاں بہت کچھ گنوایا ہے تو بہت کچھ حاصل بھی کیا ہے، پاکستان پہلا اسلامی ملک ہیں جو ایٹمی طاقت ہے ، آپ کے پاس بہت ٹیلنٹ ہے ، آپ کے پاس چار موسم ہیں ، سربلخ پہاڑ ہیں،دنیا کی پانچ بلند ترین چوٹیاں ہیں ، محنت کش لوگ ہیں ، اگر کمی ہے تو باہمی اتحاد ہے کی ہے سیاسی استحکام نہیں ہے ، سیاسی استحکام کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے ،یہاں اختلافات ریتے ہیں ۔

مجھے سیاست میںدہائیاں بیت گئی ہیں لیکن مجھے یوں لگتا ہے کہ چند سال کے بعد ہم سیاسی استحکام کی طرف جائیں گے کیونکہ لڑتے لڑتے سب تھک جائیں گے ،کچھ تھک گئے ہیں اور جو کچھ رہ گئے ہیں وہ بھی تھک جائیں گے ،جب سب تھک جائیں گے تو سب کو مل کر بیٹھنا پڑے گا جب تک سب مل کر نہیں بیٹھیں گے ،سیاستدان اورادارے مسائل کا حل نہیں نکالیں گے ہم دائرے میں سفر کرتے رہیں گے.

اس سفر کو ختم ہونا چاہیے ، پاکستان کو آگے جانا چاہیے ،پاکستانیوں کا مقدر بھوک غربت اور نا انصافی نہیں ہے ، مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ پاکستان کے فیصلہ ساز پاکستان کے پالیسی میکر زاور حکمران طبقات قوم کو انصاف نہیں دے سکے ، مختلف مواقعوں پر انصاف کے نام پر یا تو دھوکہ دیا گیا ہے یا انصاف دیا ہی نہیںگیا، لوگ بغیر تیاری کے حکومت میں آجاتے ہیں انہیں معلوم نہیں ہوتا ادارے چلانے کا میکنزم کیا ہے ہے اور انہیں کیسے آگے لے کر جانا ہے ۔

انہوںنے طلبہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جب بھی فیصلہ کریں جذبات میں آکر نہ کریں ،سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں ،یہ ملک 27رمضان کی شب کو بنا تھا مجھے یقین ہے یہ ملک اللہ کی مدد سے آگے جائے گا، ہم آج مشکلات کا سامنا کررہے ہیں اس سے نکلیں گے،ہم دیوالیہ ہونے کے دہانے پر کھڑے تھے ،آئی ایم ایف کا پروگرام خوشی کی بات نہیں مجبوری کی بات ہے ،وقت آنا چاہیے کہ ہمیں آئی ایم ایف کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا پڑیں۔

خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ میرے پاس ریلوے اور ایوی ایشن کی ذمہ داری ہے جو پندرہ ماہ میں دیکھا ہے بعض چیزیں قابل بیان نہیں ہیں، جب پیسے مانگنے کے لئے دوسروں ملکوں کے پاس جاتے ہیں تو دل کرتا ہے زمین پھٹ جائے اور ہم اس میں چلے جائیں لیکن پیسے نہ مانگنے پڑیں یہ مشکل کام ہے لیکن ہم مانگتے ہیں ، اپنے سے سو گنا چھوٹے ممالک کے آگے جا کر ہاتھ پھیلاتے ہیں پھر ہم کہتے ہیں گرین پاسپورت کی عزت نہیںہے ، جب ہم خیرات مانگیںگے پیسے مانگیں گے ہاتھ پھیلائیں گے تو کون ہماری عزت کرے گا ،یہ ہمارا قومی تضاد ہے جسے دور کرنا ہے ،ان کو دور کرنا پہلے سیاستدانوں کا کام ہے پھر ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے ،یہ اساتذہ کی بھی ذمہ داری ہے ،درسگاہ صرف ٹیکسٹ بک کے لئے نہیں ہے ، یہ ذہنی اور روحانی نشوو نما کی درسگاہ ہے ،اساتذہ کی ذمہ داری ہے وہ طلبہ کا کردار بلند کریں ،میرٹ پر کام کریں ،خرابی کا سامنا کریں تو ڈٹ جائیں کوئی نقصان نہیں ہوتا ، اس کی وقتی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے لیکن انسان ہر مشکل سے نکل جاتا ہے ،مشکل آتی ہے تو اس کے بعد آسانی بھی آتی ہے ۔

انہوںنے کہا کہ ہزارہ ایکسپریس ٹرین کے حادثے میں 30قیمتی جانیں ضائع ہوئی ہیں ، یہ کم وسائل کا شاخسانہ ہے ،اس کی تحقیقات کر رہی ہے ، موجودہ حکومت کے اپس دو روز رہ گئے ہیں اس کے بعد نگران آ جائیں گے جو ذمہ دار ہو گا اس کو سزا ملے گی ،اصل ذمہ داری ہے کہ ہمارے پاس وسائل نہیں ہیں۔ خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ چین کے ساتھ ایم ایل ون جو لاہور سے کراچی تک جاتی ہے اورمین لائن ہے اس کا فیصلہ ہو گیا ہے.

یہ فیصلہ تو ہم 2018میں کر گئے تھے لیکن اس پر کچھ نہیں ہوا اور سب کچھ ڈیپ فریزر میں چلا گیا ،دوبارہ بات کی ہے اور اکتوبر میںبیجنگ میں نگران حکومت کاچین کے صدر کی موجودگی میں یہ معاہدہ ہوگا ، اس پر پانچ سے چھ سال اگر تسلسل کے ساتھ کام جاری رہا تو پاکستانیوں کو وہ ریلوے دیکھنے کو ملے گی جو ہم ملک سے باہر جا کر دیکھتے ہیں۔

خوا جہ سعد رفیق نے کہا کہ پی آئی اے کو چلانے کے لئے میں نے بڑا زور لگایا ہے کہ کسی طرح یہ چل جائے ،پی آئی اے والوں نے خود بھی بڑا زور لگایا ہے لیکن اس نے نہیں چلنا ، میں نے ڈنکے کی چوٹ پرسب کو بتایا ہے کہ اس کو بدلنا پڑے گا اورویسے بدلنا پڑے گا جیسے باقی دنیا کیک ائیر لائنز کو بدلا گیا ہے ، کسی دور میں ہماری ائیر لائن دنیا کی بڑی ائیر لائن میں شامل تھی آج اسکی حالت نازک ہو گئی ہے ، اس میں مختلف ادوار میں سیاسی بھرتیاں کی گئی ہیں،میرٹ بیسڈ کام نہیں کیا گیا ، اس کا حل یہی ہے جو ائیر انڈیا نے اور سائوتھ افریقہ کی ائیر لائنز نے کیا ہے ، ہم نے بھی اس کی بنیاد رکھ دی ہے، اس کو چلانے کے لئے پرائیویٹ سیکٹر کو ساتھ لانا پڑے گا.

برا ہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری لانا ہو گی ، ہمارے پاس دنیا کے روٹس تو موجود ہیں لیکن جہاز نہیں ہیں پھر یہ کیسے چلے گی، ہمارے پاس سرمایہ کاری نہیں ہے ، اس کے لئے براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری لائی جارہی ہے ،ئیر پورٹس آئوٹ سورس ہوںگے ، سرکار کا کام ائیر پورٹ بنانا ہے چلانا نہیں ہے ، اب تو پرائیویٹ سیکٹر ائیر پورٹ بھی بنا رہا ہے ،سیالکوٹ کا ائیر پورٹ پرائیویٹ سیکٹر بنا رہا ہے ،پہلے مرحلے میں اسلام آباد ائیر پورٹ کو پندرہ سال کے لئے آئوٹ سورس کریں گے، آج اس کا اشتہار آرہا ہے ، آج جو ائیر پورٹ خالی نظر آتا ہے یہ بھرا ہوا نظر آئے گا، اس کی کیپسٹی ایک کروڑ سے 30لاکھ تک چلی جائے گی ۔انہوںنے کہا کہ بظاہر تو ہر طرف مایوسی کی بات ہے لیکن بہتری بھی ہو رہی ہے لوگوں کو پتہ ہی نہیں ہوتا ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں