ندیم افضل چن

انتخابات میں زیادہ تاخیر ہوئی یا کوئی اور سسٹم لایا گیا تو سیاسی طاقتیں اکٹھی ہوں گی’ ندیم افضل چن

لاہور(گلف آن لائن)پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما ندیم افضل چن نے کہا ہے کہ اگر انتخابات کے انعقاد میں زیادہ تاخیر ہوئی یا کوئی اور سسٹم لایا گیا تو سیاسی طاقتیں اکٹھی ہوں گی، لگتا ہے کسی کو نوابزادہ نصر اللہ خان والا کردار ادا کر کے سیاسی قوتوں کو اکٹھا کرنا پڑے گا اور یہ کردار آصف علی زرداری ہی ادا کر سکتے ہیں ،نگران سیٹ پر اعتراض نہیں اس سے پہلے بھی بڑے ٹیکنو کریٹس اور لائق فائق امپورٹڈ وزرائے اعظم اور وزرائے خزانہ آئے لیکن بہتری نہیں آئی ، نواز شریف واپس کیوں نہیں آئے یہ شہباز شریف سے پوچھنا چاہیے جو کہتے ہیں اسٹیبلشمنٹ ان سے راضی ہے اور وہ خود بھی آج کل بڑے خوش ہیں ،شہزاد اکبر اور اعظم خان جو کہتے تھے وہی ہوتا تھا ۔

ایک انٹر ویو میں انہوں نے کہا کہ اگر غیر سیاسی سیٹ اپ سے ملک میں بہتری آتی تو ہمیں کوئی اعتراض نہ ہوتا، ماضی میں پرویز مشرف گیارہ سال رہے ،صدر ایوب کا دور رہا ،یہاں بڑی ٹیکنو کریٹس حکومتیں آئی ہیں لائق فائق وزرائے اعظم اوروزرائے خزانہ امپورٹ کئے گئے لیکن ملک میں بہتری نہیں آسکی ۔انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتیں اور قیادتیں ابھی خاموش ہیںلیکن سیاسی جماعتوں کو اکٹھا ہونے میں وقت نہیں لگتا ، ماضی میں ایسا ہوا ہے ، اب بھی اگر انتخابات زیادہ تاخیر کا شکار ہوئے یا کوئی اور سسٹم لانے کی کوشش کی گئی تو سیاسی قوتیں اکٹھی ہو جائیں گی ،

اس ملک میں کسی کونوابزادہ نصر اللہ خان والا کردار ادا کرنا پڑے گا ، کسی کو سب کو اکٹھا کرنا پڑے گا اوریہ کردار آصف علی زرداری ہی بہتر ادا کر سکتے ہیں،آصف علی زرداری واحد شخصیت ہیںکہ ایک سیاسی جماعت دوسری سیاسی جماعت کے حوالے سے آصف علی زرداری کی گارنٹی مانگتی ہے کہ وہ گارنٹڈ ہو جائیں ،کسی کو اکٹھا کرنا ہوگا یاکوئی اتحاد بننا ہوا تو اس کے محورآصف علی زرداری اور نواز شریف ہوں گے۔انہوںنے کہا کہ پیپلز پارٹی ہر صور ت انتخابات مانگے گی اور میرے خیال بھی باقی جماعتیں بھی ہمارے ساتھ مل جائیں گی ،(ن) لیگ میں دو موقف ہیں جو عوامی لوگ ہیں جو حلقوں میں جاتے ہیں وہ انتخابات چاہتے ہیں اور جو کھمبے والا ٹکٹ سمجھتے ہیں ،جو یہ خیال کرتے ہیں کہ لاہور سے ٹکٹ مل گیا گوجرانوالہ ،فیصل آباد سے ٹکٹ مل گیا اور ہم جیت جائیں گے وہ ڈر رہے ہیں ، ملک میں اس وقت ویسے بھی سیاست نہیں رہی بلکہ مینجمنٹ ہو رہی ہے ۔انہوں نے نواز شریف کی وطن واپسی میں رکاوٹ کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا کہ ان کے بھائی شہباز شریف وزیر اعظم رہے ہیں وہ آج کل ویسے بھی بڑے خوش ہیں.

اور کہہ رہے ہیں تین سال سے اسٹیبلشمنٹ بھی ان سے راضی ہے ،وزیر اعظم بھی رہے ہیں اسٹیبلشمنٹ بھی راضی ہے تو بھائی واپس کیوں نہیں آئے یہ سوال شہباز شریف بنتا ہے ۔جیسے پی ٹی آئی چیئرمین کہتے تھے ہم ایک پیج پر ہیں اسی طرح شہباز اپنے طور پر کہتے ہیں ہم ایک پیج ہیں یہ ایک پیج سے سوال بنتا ہے ۔انہوںنے مریم نواز کی خاموشی کے حوالے سے کہا کہ ان کی ابھی صرف مگ کی تبدیلی دیکھی ہے ، نظریے کی تبدیلی کا ابھی نہیں پتہ، ابھی انہوںنے صرف مگ ہی ظاہر کیا ہے ،نظریہ یا اپنی سوچ ظاہر نہیں کی ۔ہم نے تاریخ میں چاچے مامے فارغ ہوتے دیکھے ہیں ، تاریخ اپنا راستہ خود بناتی ہے ۔

انہوں نے 190ملین پائونڈ کا معاملہ کابینہ میں آنے کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا کہ شہزاد اکبر نے کابینہ میں بند لفافہ لہرایا تھا اور کہا تھاکہ اس پر زیادہ بحث نہ کریں ، ہماری انٹر نیشنل ایجنسی کے ساتھ ارینجمنٹ ہے ،وزراء نے دستخط کئے وہی بتا سکتے ہیں، کسی نے دستخط کرنے سے انکار نہیں کیا تھا، یہ پوچھا ضرور گیا تھا اس میں کیا ہے ، اسد عمر اور شیریں مزاری اور دیگر کچھ نے کہا تھا ہم اس معاملے کو عوام میں لے کر جائیں جس سے مقبولیت ہو گی کہ ہم اتنا پیسہ واپس لائے ہیںلیکن اس کی اجازت نہیں دی گئی ، شہزاد اکبر اور اعظم خان جو کہتے تھے وہی ہوتا تھا، بیورو کریسی میں سے کم ہی ہوتے ہیں جو وعدہ معاف گواہ نہیں بنتے اکثریت تو بن جاتی ہے۔سب کو پتہ تھا کہ بند لفافے میں دو نمبری ہے ۔

انہوں نے کہا کہ فیصل واڈا کھل کر بات کرتا تھا، وہ شاہ محمود اور اسد عمر کے بارے میں کھل کر باتیں کرتا تھا، وہ غلط مشورے دینے والوں اور پی ٹی آئی چیئرمین کو جو بند گلی میں دھکیلنے والوں کی بھی بات کرتا تھا ، اس نے کابینہ میں بھی کھل کر باتیںکی اور پی ٹی آئی چیئرمین کو اپنے طور پر بھی کہتا تھا ، فیصل واڈا نے کابینہ میں کہا تھاکہ کچھ لوگ شیروانیاں سلوا کر بیٹھے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں