مشال ملک

عالمی امن کے لیے مظلوم کا ساتھ اور بھائی چارے کی فضا کو فروغ دینا ہوگا،مشال ملک

فیصل آباد(نیوز ڈیسک)وزیر اعظم کی مشیر برائے انسانی حقوق اور بہبود خواتین مشال حسین ملک نے کہاہے کہ انسانی جان سے قیمتی کوئی چیز نہیں اور نہ امن کا مطلب پسپائی یا دستبراری ہے لہذا دنیا اس وقت جن حالات کا شکار ہے اس میں سب کو دانشمندی کا مظاہرہ کرنا ہو گا ،عالمی امن کے لیے مظلوم کا ساتھ اور بھائی چارے کی فضا کو فروغ دینا ہوگا۔وہ بدھ کو جی سی یونیورسٹی نیو کیمپس فیصل آباد میں پسماندہ طبقات اور اقلیتوں کے لیے امن کو فروغ دے کر یکجہتی پیدا کرنے کے عنوان سے منعقدہ تقریب سے خطاب کررہی تھیں۔

انہوں نے کہا کہ خواتین کی شرح 54 فیصد ہے اس لیے تمام اداروں کو خواتین کو تعلیم کے یکساں مواقع فراہم کرنے چاہئیں اوررنگ و نسل،امیر و غریب کے درمیان کوئی تفریق نہیں ہونی چاہئے۔انہوں نے کہا کہ باصلاحیت لوگوں کو آگے آنا چاہئے کیونکہ جب باصلاحیت لوگ آگے آئیں گے تو ترقی کی منازل کے زینے طے ہوتے جائیں گے۔انہوں نے فلسطین اور غزہ کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کو مل کرعالمی قوانین کی بالا دستی کے لیے کام کرنا ہوگا۔ مشال ملک نے کہا کہ ہم کشمیر کی آزادی کے لیے جنگ لڑ رہے ہیں اور فلسطین میں جو ہو رہا ہے اس کی بھر پور مذمت کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم کسی بھی مذہب سے ہوں،ہمیں انسانیت کا سبق دینا،مذہبی آزادی کے حق میں آواز اٹھانا اور ہر کسی کو محبت و بھائی چارے کا سبق دینا چاہیے اور یہی وقت ہے کہ ہم اس کا سنجیدگی سے حل نکالیں۔مشال ملک نے کہا کہ اس حوالے سے جامعہ کے طلبہ پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ملکی اور عالمی سطح پر رائے عامہ ہموار کرنے میں اپنا کردار اداکریں۔اس موقع پر وائس چانسلرجی سی یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر ناصر امین نے کہا کہ ہم پرامن مذہب کے پیروکار ہیں ، ہمیں یہ ثابت کرناہے کہ ہم پرامن لوگ اور دنیا میں بھی امن کے خواہاں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر کے عوام کئی دہائیوں سے آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں لیکن کیا صرف باتوں سے ہم کچھ نتیجہ نکال پائیں گے اس کا جواب نہیں ہوگا اس کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ چین ہم سے بعد میں آزادی حاصل کرنے والاملک ہے اور دنیا کی نظریں اس پرہیں اس لیے ہمیں بھی خود کو مستحکم کرنے کے لیے معاشی طور پر مضبوط ہونا ہوگا۔اس موقع پر مختلف شعبہ جات کے سربراہان، اساتذہ اور طلبہ کی کثیر تعداد موجود تھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں