قمر زمان کائرہ

وفاقی حکومت شدید مالی مشکلات کا شکار،شونٹر منصوبہ دفاعی اعتبار سے اہم ، پھر بھی وسائل فراہم نہیں کر سکتے،قمر زمان کائرہ

اسلام آباد (گلف آن لائن)وزیر اعظم کے مشیر امور کشمیر وگلگت بلتستان قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت کے مالی وسائل کی شدید کمی ہے، اس لئے شونٹرپاس منصوبے کیلئے مالی سال2022ـ23کے دوران سو ارب فنڈزنہیں دے سکتے، منصوبہ متبادل روٹ کے طور پر انتہائی اہمیت کا حامل ہے، اس منصوبے سے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں سیاحت کی نئی راہیں کھلیں گی،اس روڈ کو دفاعی اعتبار سے بھی اہمیت حاصل ہے۔جمعہ کو سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے امور کشمیر وگلگت بلتستان کا اجلاس چیئرمین پروفیسر سینیٹر ساجد میر کی زیر صدار ت پارلیمنٹ ہائوس میں منعقد ہوا۔

اجلاس سے اظہار خیال کرتے ہوئے مشیر امور کشمیر وگلگت بلتستان نے کہا کہ گلگت بلتستان حکومت کو اس منصوبے کیلئے قراقرم ہائی وے سے منی مرگ تک سڑک بہتر کرنا ہو گا، فی الوقت اس منصوبے کیلئے سو ارب دینا ممکن نہیں۔سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ کیا یہ منصوبہ آبادی کو مدنظر رکھ کر بنایا گیا ہے یا دفاعی اعتبار کو؟۔قمر زمان کائرہ نے کہا کہ علاقے میں تو آبادی بہت کم ہے مگر شونٹر پاس دفاعی اعتبار سے اہم ہے اور یہ متبادل روٹ ہو گا۔ چیف سیکرٹری آزاد جموں وکشمیر کمیٹی کو بریفینگ دیتے ہوئے کہا کہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی حکومتیں وفاقی حکومت کی مدد شونٹر منصوبہ پر کام ہو گا، منصوبے میں بارہ کلومیٹر کا ٹنل اور 121کلومیٹر پر محیط سڑک بننی ہے، اس منصوبے کے ذریعے آزاد کشمیر کے شونٹر کو گلگت بلتستان کے ضلع استور کے علاقے رتو کیساتھ ملایا جائے گا، منصوبے پر مجموعی طور پر 69758.591ملین کی لاگت آئے گی۔

پلاننگ ڈویژن کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ شونٹر پاس منصوبے کی سینٹرل ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی(سی ڈی ڈبلیو پی)سے منظوری نہیں ہوئی۔ایڈیشنل چیف سیکرٹری نے کمیٹی کو بتایا کہ اسلام آباد سے مظفر آباد اور نیلم تک ہیلی سروس کے آغاز کیلئے ایوی ایشن ڈیڑن کیساتھ اجلاس ہو چکے ہیں،اجلاس میںآزاد کشمیر کیلئے سفاری ہیلی کاپٹر سروس اور چھوٹے جہازوں کی آپریشن پر اصولی طور پر اتفاق کیا گیا،اس سروس کے آغاز سے علاقے میں سیاحت کو فروغ ملے گا،ایوی ایشن حکام سے اسلام آباد تا مظفر آباد اور راولاکٹ مسافر فضائی سروس کے آغاز پر بھی گفتگو ہوئی،آزاد کشمیر کے نان فنکشنل ائیرپورٹ کو نجی شعبے کے ذریعے چلانے کا معاملہ بھی ایوی ایشن ڈویژن کے سامنے اٹھایا گیا۔مشیر امور کشمیر و گلگت بلتستان نے کہا کہ آزاد کشمیر کیلئے ہیلی سروس شروع کرنا حکومت کے بس میں نہیں،ہیلی سروس کیلئے حکومت پاکستان سبسڈی دینے کی پوزیشن میں ہے اور نہ ہی آزاد کشمیر حکومت،سروس کے آغاز سے بلا شبہ سیاحت کے شعبے کو فروغ ملے گا،اس کیلئے نجے شعبے کو آگے آنا ہو گا،ایک کمپنی آزاد کشمیر کیلئے فضائی سروس شروع کرنا چاہتی ہے۔

ایڈیشنل چیف سیکرٹری آزاد کشمیر کا کمیٹی کی پچھلی سفارشات پر عملدرآمد سے متعلق بریفینگ دیتے ہوئے کہا کہ اے جے کے ٹیلی ویژن پاکستان ٹیلی ویژن کے پراجیکٹ کا حصہ ہے،یہ سیٹلائٹ چینل ہے جس کی ایشیا اور یورپ تک براڈ کاسٹ کی صلاحیت ہے،کشمیرر کاز کو اجاگر کرنے کیلئے 24گھنٹے نشریات والے سیٹلائٹ چینل کی ضرورت ہے۔مشیر امور کشمیر و گلگت بلتستان نے کہا کہ اے جے کے چینل کیلئے حکومت اقدامات کررہی ہے۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ،نجی چینلز کشمیر ایشوکو کتنا وقت دیتا ہے؟صرف سرکاری چینلز پر کشمیر ایشو کو اجاگر کرنے سے کچھ نہیں ہو گا،پاکستان ٹیلی ویڑن کوئی نہیں دیکھتا۔قمر الزمان کائرہ نے کہا کہ تمام نجی چینلز پبلک سروس کیلئے وقت دینے کا پابند ہوتے ہیں،نجی چینلز عموماً رات بارہ بجے کے بعد کا وقت پبلک سروس کیلئے مختص کرتی ہیں،رات بارہ بجے کے بعد پبلک سروس کے پیغامات چلانے کا فائدہ نہیں،تمام نجی چینلز کوالٹی ٹائم (پرائم ٹائم) کے حصے میں سے کچھ حصہ پبلک سروس کیلئے مختص کرنا چاہئے۔سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ کشمیر کاز کو دنیاتک میڈیا کے ذریعے ہی اجاگر کیا جاسکتا ہے،اس معاملے پر سنجیدگی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔

کمیٹی نے اے جے کے ٹیلی ویڑن کے آغا سے متعلق اگلے اجلاس میں تفصیلی بریفینگ طلب کرلی۔کمیٹی میں بینک آف آزاد جموں و کشمیر کی کارکردی کا جائزہ لیا گیا۔ ایڈیشنل چیف سیکرٹری آزاد کشمیر نے کمیٹی کو بتایا کہ بینک آف آزاد جموں وکشمیر 2006میں قائم ہوا،اس وقت پورے آزاد کشمیر میں 177برانچز ہیں،شیڈول اسٹیٹس کے حصول کیلئے کم سے کم سرمایہ دس ارب کا درمایہ ضروری ہے،آزاد کشمیر بینک اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی ریگولیشن کے تحت کام کرتی ہے،شیڈول بینک کا اسٹیٹس حاصل کرنے کے بعدپورے پاکستان میں برانچز قائم کیے جائیں گے،بورڈ آف ڈائریکٹرز نے 49فیصد ایکویٹی (حصص)کی شمولیت کی اجازت دی ہے۔ایڈیشنل چیف سیکرٹری آزاد کشمیر نے کمیٹی کو مزید بتایا کہ عبوری آئین کے آرٹیکل 22 کے تحت آزاد جموں کشمیر قانون ساز اسمبلی تشکیل پاتی ہے،قانون ساز اسمبلی کے کل 53ممبران ہیں،مقبوضہ کشمیر کے پاکستان میں مقیم مہاجرین چھ ممبران کا انتخاب کرتے ہیں،چھ ممبران کو اسٹیٹ سبجیکٹ کے علاقوں کے پاکستان میں مقیم افراد منتخب کرتے ہیں۔اجلاس میں مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق یو این ایچ سی آر کی رپورٹ کو عالمی عدالت انصاف میں اٹھانے کا معاملہ بھی زیر غورآیا۔

مشیر امور کشمیر و گلگت بلتستان نے کمیٹی کو بتایا کہ آزاد کشمیر نان ممبر اسٹیٹ،اس لئے آزاد کشمیر حکومت اس رپورٹ کو بین الاقوامی عدالت انصاف میں نہیں اٹھا سکتی،اس معاملے پر وزارت خارجہ بہتر انداز میں بریف کرسکتی ہے۔چیئرمین کمیٹی پروفیسر ساجد میر نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم جاری ہے،مقبوضہ کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو عالمی فورم پر اٹھانا چاہیے۔

قمر الزمان کائرہ نے کہا کہ اسلام آباد : مسلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کا اپنا اخلاقی، قانونی اور سیاسی فریضہ سر انجام دیتے رہیں گے، یاسین ملک کی بھارتی جارحیت کے خلاف طویل جدوجہد ہے،پاکستان مسلہ کشمیر کو دنیا کے تمام فورمز پر بھرپور انداز سے اجاگر کر رہا ہے ،مسلہ کشمیر پر سینئرر وکلائ ، ججز اور یونیورسٹیز کو بھی مشاورت کا حصہ بنا رہے ہیں ، پاکستان کی یونیورسٹیز میں کشمیر چئیر قائم کرنے کے اقدامات کر رہے ہیں،مسلم ممالک کو مسلہ کشمیر پر مزید ٹھوس موقف اپنانے کی ضرورت ہے،مضبوط پاکستان اور موثر سفارت کاری ہی مسلہ کشمیر کا حل ہیں، کشمیر سٹیٹ پراپرٹی میں بے ضابطگیوں کا نوٹس لیا ہے، مکمل چھان بین کر رہے ہی۔

مشیر امور کشمیر و گلگت بلتستان نے کمیٹی کو بتایا کہ گلگت بلتستان میں قدرتی آفات کے حوالے سے سو سے زائد انتہائی خطرناک مقامات ہیں،گلگت بلتستان میں موسمیاتی تبدیلی کے سروے کے لیے ریڈار سسٹم گلگت بلتستان پہنچ چکا ہے ،مالی مشکلات کے باوجود آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو پچھلے سال کے برابر بجٹ دیا ہے۔کمیٹی نے یو این ایچ سی آر کی رپورٹ کو عالمی عدالت انصاف میں اٹھانے سے متعلق وزارت خارجہ سے بریفینگ طلب کرلی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں