سینیٹر اعظم نذیر تارڑ

چیف جسٹس پاکستان اعلیٰ عدلیہ کے جج ،پرویز الٰہی کی مبینہ آڈیو ،گھر پر ملاقات کا نوٹس لیں ‘ عطااللہ تارڑ

لاہور(گلف آن لائن) وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے داخلہ و قانونی امور عطا اللہ تارڑ نے چیف جسٹس پاکستان سے اعلیٰ عدلیہ کے ایک جج اور سابق وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی کی مبینہ آڈیو سامنے آنے اور جج کے گھر پر ملاقات کا نوٹس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس ادارے پر انگلی نہیں اٹھنی چاہیے اس پر دھبے نہیں لگنے چاہئیں جس کا کام انصاف کرنا ہے ، جب آپ سیاسی پارٹیوں کے لوگوںکو گھر بلا کر ملیں گے ، جس شخص پر اربوں روپے کرپشن کے کیسز ہیں اسے پاس بٹھائیں گے تو یہ پورے ملک کے عدالتی نظام پر سوالیہ نشان لگے گا، یہ سیاہ دھبہ صاف کرنا ہوگا اس کو دھونا ہوگا ،

جو سہولتیں عمران خان کو حاصل ہیں وہ ملک میں کسی اورسیاستدان کو حاصل نہیں ہوئیں، آپ کی ضمانت کی درخواست لگی ہوئی ہے لیکن لاڈلے سے گھر بیٹھے پوچھا جاتا ہے آپ تشریف لانا پسند کریں گے ، اگر مبینہ آڈیو پر نوٹس نہ لیا گیا تو قانونی مشاورت کے بعد فیصلہ کریں گے۔ماڈل ٹائون میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے عطا اللہ تارڑ نے کہا کہ جب اسلام آباد میں واقعہ انصاف کی شاندار سفید عمارت پر دھبے لگتے ہیں تو ہمارا دل دکھتا ہے دل رنجیدہ ہوتا ہے ،ہمیں افسوس ہوتا ہے کہ اس ادارے میں ایسے لوگ بیٹھے ہیں جن کے کردار پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں لیکن ان کے خلاف ایکشن لینا والا بھی کوئی نہیں اور صفائی دینے والا بھی کوئی نہیں ۔ انہوںنے کہاکہ غلام محمود ڈوگر نے بطور ڈی آئی جی آپریشن ایک بیوہ کے پلات پر قبضے کی کوشش کی ، انہیں شہباز شریف نے تعینات کیا تھا ، جب شہباز شریف کے پاس بیوہ کی شکایت آئی تو ان کے خلاف انکوائری ہوئی جس میں قبضے کی کوشش ثابت ہوئی جس پر انہیں عہدے سے ہٹایا گیا اور انکوائری رپورٹ میں لکھا ہے کہ اس کو کسی اعلیٰ عہدے پر فائز نہ کیا جائے ۔

ایک ریٹائر کرنل کی فیملی جو اوورسیز ہیں ان کے پلازے پر قبضے پر کوشش کی گئی اس کی بھی انکوائری کی گئی ،پرچے کرائے گئے تو انہوںنے وہ معاملہ چھوڑا ،پنجاب میں حالیہ جو حکومت تھی اس میں مونس الٰہی نے ماڈل ٹائون لنک روڈ سے لے کر بڑی بڑی ہائوسنگ سوسائٹیز میں قبضے کئے، کیا انہیں غلام محمود ڈوگر کی آشیر باد حاصل نہیںتھی کہ ہر دوسرے پلات پرقبضہ ہو رہا ہے ، انہیں کچھ طاقتور لوگوں کی پشت پناہی حاصل تھی جو آڈیو لیکس کے بعد واضح ہو گیا ہے ، ان کے خلاف قبضہ مافیا کا سر غنہ ہونے کی خبریں چھپتی رہی ہیں ۔ انہوںنے کہاکہ اب ایک اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحب کی آڈیو آئی ہے ان کے خلاف ابھی تک کوئی ایکشن نہیں لیا گیا ، اب تک کیوں ایکشن نہیں لیا گیا حالانکہ پاکستان بار کونسل نے تحقیقات کا مطالبہ کیاہے ، کرپٹ ترین پولیس افسر کے لئے عدالت بھی لگتی ہے اس کے حق میں فیصلے بھی سنائے جاتے ہیں اوراسے تحفظ بھی حاصل ہوتا ہے ، اس کا ماضی تو دیکھیں اس کی فائل دیکھی ہے پھر کیوں اسے کوئی تحفظ دیا جارہا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ جن جج صاحب کی آڈیو سامنے آئے ہیں ا س مبینہ آڈیو میں سنا جا سکتا ہے کہ محمد خان بھٹی ان کے گھر پر بیٹھا ہے ، وہ اپنے فون سے جج صاحب کی پرویز الٰہی سے بات کراتا ہے ، پھر پرویز الٰہی کہتے ہیں آپ کے گھر آرہا ہوں ، ایک سیاسی پارٹی کا رہنما کیوں اس طریقے سے آپ کے گھر آتا ہے اور اس کا سیکرٹری پہلے ہی وہاں بیٹھا ہو ۔ پھر پرویز الٰہی کہتے ہیں میں بغیر پروٹوکول آئوں گا، جب انہیں ڈر اورخوف ہو تا ہے اور چھپ کر ملنا تو پھر یہ بغیر پروٹوکول جاتے ہیں ، اگر آپ افسوس کے لئے جارہے تھے یا کوئی اور معاملہ تھا توعلی الاعلان کہتے میں جارہا ہوں۔ اس کا مطلب ہے کہ دال میں کچھ کالا تھا کوئی بات تھی جس کو پوشیدہ رکھنا تھا۔ ہمارے بارے میں کوئی بات نہیں بھی تھی تو کہتے ہیں ڈگی میں جاتے ہیں کہانیاں بناتے ہیں۔

بتایا جائے اس مبینہ آڈیو اور ملاقات پر کیا ایکشن لیا گیا ہے ۔انصاف کے مقدس ادارے میں ایسی کالی بھی بھیڑیں بھی ہیں جو ادارے کو بدنام کر رہی ہیں،لوگ بات کر رہے ہیں لاہور کینٹ میں چار کنال کا پلاٹ ہے جس کی 32کروڑ روپے قیمت ہے ،ایسی کون سی جج شپ ہے کہ آپ کا 32کروڑ کا پلاٹ ہے اس پر تعمیرات بھی ہو رہی ہیں اور یہ 70سے72کروڑ کا گھر ہے،کوئی تحقیقات کرنے والا ہے کوئی بات کرنے والا ہے ۔انہوںنے کہا کہ پرویز الٰہی نے یار جج صاحب کو نہیں کہا بلکہ محمد خان بھٹی کوکہا ۔ایک مفرور ملزم ہے اس پر بطور پرنسپل سیکرٹری اربوں روپے کی کرپشن کے کیسز ہیں اسے جج صاحب کے گھر میں داخلے کی اجازت کیسے ملی اس کا جواب چاہیے ، ان جج صاحب کا عدالتوں میں ہمارے ساتھ جو رویہ رہا اس پر بات نہیں کرتا ، لیکن مبینہ آڈیو میں کس طرح جی چوہدری صاحب کے الفاظ ادا ہو رہے تھے ، یہ سیاہ کریں سفید کریں انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ، کیا چیف جسٹس پاکستان کو اس کا نوٹس نہیں لینا چاہیے ۔

صدر سپریم کورٹ بار کی پرویز الٰہی سے بات ہو رہی ہے تو وہ کہتے ہیں پرسوں ڈوگر والا کیس بھی لگا ہے ، پرویز الٰہی کہتے ہیں محمد خان بھٹی والا بھی انہی جج صاحب کے پاس لگوا لیں ، یہ مدعی بھی خود وکیل بھی خود ہیں اورجج بھی خود ہیں، اس کی شفاف تحقیقات ہوں ،اس ادارے پر انگلی نہیں اٹھنی چاہیے اس ادارے پر دھبے نہیں لگنے چاہئیں جس کا کام انصاف کرنا ہے ، جب ایسے سوالیہ نشان اٹھیں گے ایسی باتیں سامنے آئیں گی ،کیس اپنے پاس فکس کرائے جائیں گے ،سیاسی پارٹیوں کے لوگوںکو گھر بلا کر ملیں گے ، جس شخص پر اربوں روپے کرپشن کے کیسز ہیں اسے پاس بٹھائیں گے تو یہ پورے ملک کے عدالتی نظام پر سوالیہ نشان لگے گا، یہ سیاہ دھبہ صاف کرنا ہوگا اس کو دھونا ہوگا ، یہ نہیںہوسکتا جن کے رابطے ہر جگہ ہوں وہ بچ جائیں،پہلے بھی آپ کے خلاف ریفرنس فائل ہوا ، سابق چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا کنڈکٹ کلر فل ہے ،کسی نے پوچھا ،وہاں سے بھی لمبے ہاتھ استعمال کئے اورباعزت بری ہوگئے ۔ انہوںنے کہاکہ اتنے لوگ سوال کر رہے ہیں اس کا جواب کوئی نہیں دے گا ان صاحب سے کوئی نہیںپوچھا گا پرویز الٰہی کو کیوں بلایا کیوں ساتھ بٹھایا ؟۔

،کیس فکس کرانے کے حوالے سے بات ہو رہی ہے پرویز الٰہی سے ملاقات ہو رہی ہے محمد خان بھٹی گھر پر بیٹھا ہے کیا صرف سیاستدان رہ گئے ہیں احتساب کے لئے انہیں جب چاہیں بند کر دو نکال دو ۔ آپ کے دونوں بیٹے ہائیکورٹ میں کھلواڑ کرتے ہیں ،یہ بات ہوتی ہے ان کو وکیل کرو، باقی وکیل بھی پریکٹس میں آتے لیکن آپ کے بیٹوں کی وکالت آتے ہی چل پڑی ہے ،یہ بڑے غور طلب سوالات ہیں اور ہم حق بجانب ہیں کہ اس پر بات کریں ۔ہمارے مخالفین کو تو سپیس دی جائے اور انہیں گھر تک رسائی حاصل ہو ،کیا ہم چپ کر جائیں اپنے ہونٹ سی لیں زبانوں کو تالے لگا لیں او رکوئی بات نہ کریں ، سیاسی مخالفین اپنے تعلقات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمیں دیوار کے ساتھ لگائیں ہم اُف بھی نہ کریں۔ انہوںنے کہاکہ چیف جسٹس پاکستان کو چاہیے ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ بطور آئینی عہدیدار کے اس کی شفاف تحقیقات کرائیں ۔

انہوںنے کہاکہ یہ معاملہ یہ کئی مہینوں سے چل رہا ہے کہ ہمیں عدالتوںمیںکھڑے ہو کر حکم صادر کیا جاتاہے لیکن ہم سر نیچے کر کے ان احکامات کو مانتے ہیں ، ایک لاڈلا گھر بیٹھا ہے جس سے پوچھا جاتا ہے آپ کب تشریف لا سکتے ہیں ، آپ کی ضمانت کی درخواست لگی ہوئی ہے ، آپ آناپسند کرینگ ے ، بھئی کیسی ٹانگ خراب ہے ،میڈیکل بورد بنا دیں پتہ چل جائے گا ٹانگ کتنی خراب ہے ۔بارڈر پر فوجی کو سات گولیاں لگتی ہے وہ دو ماہ میں ٹھیک ہو کر واپس ڈیوٹی پر چلا جاتا ہے ، آپ کو چھرے لگے ہیں، کنٹینرز کے پیس لگے ہیں لیکن آپ عدالتی نظام کو دھوکہ دینے کیلئے ٹانگ کا بہانہ کر رہے ہیں۔ آپ خاک جیل بھرو تحریک چلائیں گے جب پولیس آتی ہے تو عورتوں اور بچوں کو آگے کھڑا کر دیتے ہو اورچھپ جاتے ہو ، انہیں جو سہولتیں حاصل ہیں وہ ملک میں کسی اورسیاستدان کو حاصل نہیں ہوئیں، آپ کو تاریخ پر تاریخ مل جاتی ہے ، آپ چاہتے ہیں ٹیرین کے کیس میں عدالتی فیصلے کو مزید تاخیر کا شکار کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ توشہ خان میں حکم امتناعی ہے، فارن فنڈنگ میں دو مقدمات میں حکم امتناعی ہے ،گجرات کے ایک جج صاحب ہیں جن کے پاس ان کا ہر کیس جاتا ہے ۔ہم نے عمران خان کے خلاف جرائم پر ایف آئی آرز نہ کاٹی ہوں تو حکومت کو مورد الزام ٹھہرایا جا سکتا ہے لیکن جب انہیں ایسے ریلیف ملے گا تو نظام کیسے چلے گا۔ انہوں نے مبینہ آڈیو سامنے آنے پر جج کے خلاف کارروائی نہ ہونے کی صورت میں سوال پر کہا کہ ہم اس بارے میں قانونی مشاورت کریں گے اگر نوٹس نہیں لیا جاتا ہے مشاورت کے بعد فیصلہ کریں گے۔انہوںنے کہاکہ معاملات بہت پیچیدہ اورغور طلب ہیں ، اس کی تحقیقات ہونی چاہئیں کہ جج صاحب کا پرویز الٰہی سے کیوں رابطہ تھا ،محمد خان بھٹی کیوں ان کے گھر آئے ، غلام محمود ڈوگر کو تحفظ دینے بات کیوں کی جارہی ہے،اس معاملے کو حل کرنا ہوگا ورنہ کوئی اس ملک میں انصاف کی توقع نہیں رکھے گا،عدالتی نظام پر یقین نہیں کرے گا ۔

نیک نام جج جو حلال روزی روٹی کماتے ہیںجن کے بچے باہر نہیں پڑھ سکیں جو نیک ہیں ایماندار ہیں ان کے اوپر کیوں سوالیہ نشان لگ رہا ہے ،ایک شخص کی وجہ سے پورے سسٹم کو مت کمپرو مائز کیا جائے ، ایک آدمی کی وجہ سے انصاف کے سارے نظام پر سیاہ دھبہ نہ لگایا جائے ، تحقیقات کی جائیں تاکہ وہ ایماندار اورانصاف پسند جج جو صبح شام پاکستان کی خدمت کرتے ہیں ان کو تحفظ حاصل ہو ۔ عطا اللہ تارڑ نے کہا کہ یہاںایماندار ججز کے خلاف تحقیقات ہوتی نہیں اور انہیں بر طرف کر دیا جاتا ہے ، ایک جج صاحب پر الزامات ہیں لیکن کسی کی کان پرجوں نہیں رینگتی ،ادارے کی ذمہ داری ہے اس کو کلیئر کیا جائے اورآڈیو کے حوالے سے وضاحت آنی چاہیے ،چیف جسٹس کو اس کا نوٹس لے کر اسے حل کرنا چاہیے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں