256

اسٹیبلشمنٹ نے نیوٹرل رہنے کا فیصلہ کیا تھا ،سیاستدانوں نے یہ سنہری موقع گنوا دیا، بلاول

اسلام آباد (نمائندہ خصوصی)چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے بہت اچھا مؤقف اپنایا تھا کہ ہم اب نیوٹرل رہیں گے اور سیاست میں عمل دخل نہیں کریں گے، اس تاریخی موقف کو سیاستدانوں کو عملی جامہ پہنانا چاہیے تھا لیکن بدقسمتی سے سویلینز اور سیاستدانوں نے وہ سنہری موقع گنوا دیا۔

ایک انٹرویومیں انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں ایسے موقع کم ملتے ہیں اور اس موقع کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام سیاستدانوں کا کردار یہ ہونا چاہیے تھا کہ ہم اس موقف کو حقیقت کا روپ دیتے۔لایک انٹرویومیں بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہم نے الیکشن کے لیے اپنا 10 نکاتی منشور دے دیا ہے اور ہم نے الیکشن میں کیے گئے وعدوں کو ہمیشہ پورا کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اشرافیہ کو 1500 ارب کی سبسڈی دی جاتی ہے،

ہم 17 وزارتوں اور اشرافیہ کو دی جانے والی سبسڈی کو بند کرنا چاہتے ہیں اور اگر ہم آئی ایم ایف کو بھی بتائیں گے کہ ہم یہ 1500 ارب غریب عوام کو دینا چاہتے ہیں تو وہ اس کے لیے منع نہیں کریں گے۔انہوںنے کہاکہ ہم آزاد امیدواروں کے ساتھ مل کر 172 نشستوں کا ہندسہ عبور کریں گے، ہم ابھی سے انتخابات لڑنے والے بہت سے امیدواروں سے رابطے میں ہیں اور 8 فروری کو سرپرائز دیں گے۔

مسلم لیگ(ن) کے ساتھ اتحاد کے حوالے سے سوال پر پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے کہا کہ میرا مسلم لیگ(ن) کے ساتھ چلنے کا بالکل ارادہ نہیں ہے کیونکہ مجھے کوئی تبدیلی نظر نہیں آ رہی، مجھے لگتا ہے کہ انہوں نے وہی پرانی سیاست کرنی ہے، انہوں نے سیاست کو سیاست نہیں چھوڑا بلکہ یہ اب ذاتی دشمنی میں تبدیل ہو چکی ہے۔انہوں نے کہا کہ انہیں (ن لیگ کو) سیاسی طور پر لوگوں کو نشانہ بنانے علاوہ کسی چیز میں دلچسپی نہیں ہے،

انہیں عوام کے مسائل حل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، پاکستان اس وقت مشکل وقت سے گزر رہا ہے اور ہمیں مسائل کے طوفانوں کا سامنا ہے، ہر طرف ایک معاشی بحران ہے اور دہشت گرد ایک بار پھر سر اٹھا رہے ہیں۔بلاول بھٹو زر داری نے کہا کہ چاہے مسلم لیگ(ن) ہو یا پی ٹی آئی ، جب یہ حکومت میں آتے ہیں تو ان کی اصل توجہ اس بات پر ہوتی ہے کہ ہم کس طرح سے اپنی اپوزیشن کو تکلیف پہنچانی ہے، پیپلز پارٹی کے دور میں ایک بھی سیاسی قیدی نہیں تھا اور میں چاہتا ہوں کہ ہم سیاست کو سیاست ہی سمجھیں، اسے ذاتی دشمنی تک نہ لے کر جائیں۔

انہوں نے کہا کہ میاں صاحب چوتھی بار وزیراعظم بننے کی کوشش کررہے ہیں لیکن انہوں نے اپنی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھا، وہ جو اپنی آخری اننگز میں جمہوری انداز میں سیاست اور میثاق جمہوریت پر عمل کرنے کے بجائے آئی جے آئی والی سیاست کررہے ہیں جو انہوں نے ضیاالحق کی حمایت سے شروع کی تھی۔انہوںنے کہاکہ چاہے پی ٹی آئی ہو یا مسلم لیگ(ن)، اگر انہوں نے پرانی سیاست کرنی ہے تو میں ان کا ساتھ نہیں دے سکوں گا۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے کہاکہ میاں نواز شریف خود کو ملک پر مسلط کرنا چاہ رہے ہیں، جب وہ 21 اکتوبر وطن آئے تو بہت بڑا جلسہ کیا، اس کے بعد ان کی انتخابی مہم کا سلسلہ چلنا چاہیے تھا تاہم مجھے حیرت ہے کہ انہوں مہم نہیں چلائی، ہمارے انتخابات کی ساکھ اور شفافیت اس بات سے متاثر ہوئی ہے کہ مسلم لیگ(ن) نے پتا نہیں کیوں یہ فیصلہ کیا کہ ہم نے مہم نہیں چلانی، ان کا بیانیہ ہے کہ ساڈی گل ہو گئی ہے۔

مجھے پی ڈی ایم حکومت میں وزارت خارجہ چھوڑنی چاہیے تھی، جب ایسے کچھ فیصلے لیے گئے جو میرے نظریے اور منشور کے مطابق نہیں تھے تو میں نے وزارت چھوڑنے کی کوشش کی، میں نے پارٹی اور صدر زرداری سے کہا کہ میں ایسے نہیں چل سکتا لیکن والد صاحب نے اس وقت کہا کہ میں نے زبان دی ہے اور میں اپنی زبان پر قائم ہوں، میں ابھی انہیں دھوکا نہیں دے سکتا۔

ایک سوال کے جواب میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ میرے خیال میں اسٹیبلشمنٹ نے بہت اچھا موقف اپنایا تھا کہ ہم اب نیوٹرل رہیں گے اور سیاست میں عمل دخل نہیں کریں گے، اس کا نقصان ادارے اور ملک کو ہوتا ہے، یہ ایک تاریخی موقف تھا اور سیاستدانوں کا کام تھا وہ اس سوچ کو حقیقت میں بدل کر عملی جامہ پہنچاتے۔سابق وزیر خارجہ نے کہا کہ کچھ ہماری حکومت اور کچھ ہماری اپوزیشن کی غلطیوں کی وجہ سے پاکستان کے سویلینز اور سیاستدانوں نے وہ سنہری موقع گنوا دیا، کسی ایک نے اداروں پر حملہ کیا تو دوسرے نے تناؤ کم کرنے کے بجائے ہر موقع کو استعمال کیا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں ایسے مواقع کم ملتے ہیں اور اس موقع کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام سیاستدانوں کا کردار یہ ہونا چاہیے تھا کہ ہم اس موقف کو حقیقت کا روپ دیتے۔بلاول بھٹو زر داری نے کہا کہ جب 9 مئی کا واقعہ ہوا تھا تو میں نے اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر کہا تھا کہ پی ٹی آئی نے خود کو بند گلی میں دھکیل دیا ہے، ایسا نہ ہو کہ پورے نظام کو ہی بند گلی میں دھکیل دیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ 9 مئی یا اس قسم کی سیاست سے پاکستان کی جمہوریت کو بہت نقصان پہنچا ہے، اب ہمیں ایسی حکومت چاہیے جو مفاہمت کی سیاست کر سکے، ان زخموں کو بھر سکے، ملک کو ایک کر سکے ، ملک کو ایک کر سکے، میرے خیال میں مسلم لیگ(ن) وہ نہیں کر سکتی، پی ٹی آئی وہ نہیں کرسکتی اور صرف اور صرف پیپلز پارٹی وہ کام کر سکتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں