سینٹ

سینٹ نے سری لنکن شہری پرینتھاکمارا کے قتل کیخلاف متفقہ قرار داد منظور کرلی

اسلام آباد (گلف آن لائن) سینٹ نے سری لنکن شہری پرینتھاکمارا کے قتل کے خلاف متفقہ قرار داد منظور کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ایسے واقعات سے ہمارے مذہب کاکوئی تعلق نہیں ہے ، واقعہ میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی جائے جبکہ اراکین نے سانحہ سیالکوٹ پر سخت تشویش کااظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیالکوٹ میں ہونے والے واقعہ نے ہمیں ہلا کر رکھ دیا ہے،ہمارے ہاں سزائیں بہت سخت ہیں پھر کرائم کیوں بڑھ رہے ، قانون کو ہاتھ میں لینے کے روش کے خلاف حکومتی اقدامات کی ضرورت ہے،نیشنل ایکشن پلان پر عمل ہوتا تو شاید یہ حالات نہ ہوتے،

سیاسی ایجنڈے کو اگے بڑھانے کیلئے پاکستان کو کہاں کھڑا کیا گیا،سب کو ملکر سیاسی اختلافات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسے معاملات پر اکٹھا ہونا ہوگا،ایوان کو بتایا جائے ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کس بنیاد پر اور کن شراط پر مذاکرات کر رہی ہے،جب تک ریاست پارلیمنٹ کو جوابدہ نہیں ہو گی اس وقت تک ملک آگے نہیں بڑھ سکتا ہے ، سیالکوٹ واقعہ کو ٹیسٹ کیس بنا کر سپیڈی ٹرائل کیا جائے۔ جمعہ کو سینٹ اجلاس کے دور ان قائد ایوان ڈاکٹر شہزاد وسیم نے سری لنکن شہری پرینتھا کمارا کے قتل پر متفقہ قرارداد پیش کی جس میں کہاگیاکہ سری لنکن عوام اور مقتول کے خاندان سے اظہار تعزیت کرتے ہیں۔ قرار داد میں کہاگیاکہ ایوان ایسے انتہا پسندی کے واقعات کی مذمت کرتا ہے ۔

قرار داد میں کہاگیاکہ ایسے واقعات سے ہمارے مذہب کا کوئی تعلق نہیں۔ متن کے مطابق قرارداد کے ذریعے حکومت سے مطالبہ ہے کہ واقعہ میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرے۔ بعد ازاں سینیٹ نے متفقہ طور پر قرارداد منظور کرلی۔ چیئر مین سینٹ نے کہاکہ سینیٹ کا ایک وفد سری لنکن شہری سے تعزیت کیلئے سری لنکا جائے گا۔قبل ازیں اجلا س شروع ہوا قائد ایوان سینیٹ ڈاکٹر شہزاد وسیم نے معمول کا ایجنڈا معطل کرنے کی تحریک پیش کی جو متفقہ طور پر منظور کرلی گئی ۔سینیٹر دنیش کمار نے نکتہ اعتراض پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ پوری دنیا میں مسیحی برادری کرسمس کا تہوار منارہی ہے ان کو مبارکباد دیتے ہیں،قائد اعظم محمد علی جناح کا یوم پیدائش بھی ہے، قائد اعظم محمد علی جناح کے اقلیتوں کے حوالے سے کہی ہوئی بات ہمارے لئے اقوال زریں ہے۔ بعد ازاں سیالکوٹ میں سری لنکن شہری پر پرتشدد عمل پر تحریک التواء پر بحث شروع کرتے ہوئے سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہاکہ ہمارے معاشرے میں عدم برداشت کا رویہ بڑھ رہا ہے،60 اور 70 دہائی میں عدم برداشت اور انتہا پسندی نہیں تھی ۔ انہوںنے کہاکہ سیاسی مقاصد کے حصول باقاعدہ طور پر اس رویہ جنرل ضیاء کے دور میں عام کیا گیا۔

انہوںنے کہاکہ سری لنکن شہری کے واقعہ سے قبل سیالکوٹ میں دو بھائیوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا،عوام نے ان کی ویڈیو بنائی لیکن کسی نے بھی ہجوم کو نہیں روکا، اس کیس کے ملزمان کو 2019 میں چھوڑ دیا گیا، یہ سماجی بے حسی ہے جسکے خلاف سب کو لڑنا ہوگا۔ انہوںنے کہاکہ قصور میں بھی میاں بیوی جو بھٹہ مزدور تھے ان کو بھٹی میں ڈال کر جلایا گیا،قصور واقعہ کے ملزمان کو بری کردیا گیا،کئی ایسے واقعات ہوئے جس میں سزائیں ہوئیں اور بعد میں ملزمان چھوٹ گئے۔ انہوںنے کہاکہ سیالکوٹ میں ہونے والے واقعہ نے ہمیں ہلا کر رکھ دیا ہے،ایک ہجوم نے جس سنگدلی اور بربریت سے ایک معصوم کی جان لی گئی۔انہوںنے کہاکہ فیروز پورہ واقعے سمیت تقریباً تمام کیسزکا نتیجہ ایک ساہی تھا،صرف قصور میں معصوم زینب کے مجرموں کو سزا ہوائی۔ انہوںنے کہاکہ آج معصوم زینب بھی نہیں اور وہ درندہ بھی اس دنیا میں نہیں رہا۔ انہوںنے کہاکہ کہا جاتا ہے ہمارے قانون میں کہیں نہ کہیں سقم ہیں،اگر ہمارے قوانین میں سقم ہیں تو ہم یہاں کیوں بیٹھے ہیں۔انہوںنے کہاکہ ہمیں ایسے قوانین کی اشد ضرورت ہے جن میں سزائیں ہوں ،واقعات کے اوپر ہم قانون سازی کے بہت ماہر ہیں۔

انہوںنین کہاکہ قصور واقعہ ہوا ہم نے زینب الرٹ بل لے آئے،لاہور موٹروے واقعہ پر قوانین کو سخت کیا گیا۔ انہوںنے کہاکہ ہمارے ہاں سزائیں بہت سخت ہیں سزائے موت ہے مگر کرائم کیوں بڑھ رہے ، قانون سازی پر سوچنا ہوگا۔ انہوںنے کہاکہ یہاں پولیس والوں کو قتل کرنے والوں سے مذاکرات ہو جاتے ہیں ۔

انہوںنے کہاکہ فوجداری نظام اصلاح کیلئے سب کو مل کے بیٹھنا ہوگا،نیشنل ایکشن پلان پر عمل ہوتا تو شاید یہ حالات نہ ہوتے،ہم سب کو ملکر سیاسی اختلافات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسے معاملات پر اکٹھا ہونا ہوگا۔ قائد ایوان شہزا دوسیم نے کہاکہ پریانتھا کمارا پر جو ظلم ہو ا اس پر تکلیف اور ندامت محسوس کررہے ہیں،جو واقعہ رونما ہوا وہ ایک خاص رجحان کی جانب توجہ دلاتا ہے ،یہ رجحان آہستہ آہستہ ہمارے معاشرے کا حصہ بنتا جا رہا ہے ، انہوںنے کہاکہ ہم جہاں ظالم دیکھے ہیں وہیں ملک عدنان جیسا ملک کی اکثریت کا نمائندہ بنا ۔ انہوںنے کہاکہ حکومت ، عوام ، سیاسی جماعتیں علما سب نے اس واقعے کے خلاف اپنے غم و غصے کا اظہار کیا۔ انہوںنے کہا کہ سری لنکن شہری کی سیالکوٹ میں ہونے والی موت پر جتنی مزمت کی جائے کم ہے،ڈاکٹر شہزاد وسیم ،دکھ تکلیف،ندامت کا اظہار حکومت سمیت سب نے کیا ،یہ واقعہ بتاتا ہے کس طرح ایک اقلیتی گروہ اس کوشش ہے کہ کس طرح معاشرے کو یرغمال بنایا جائے لیکن اس ملک میں کچھ روشن چہرے بھی ہیں جن کے ساتھ سب ہوتے ہیںوہ روشن چہرہ ڈاکٹر عدنان جیسے انسان کا تھا۔ڈاکٹر شہزاد وسیم نے کہاہک ڈاکٹر عدنان اقلیتی گروہ میں اکیلا روشنی کرنے والا تھا مگر پھر پورا ملک سب اس کے ساتھ تھا۔ انہوںنے کہاکہ شدت پسندی کا یہ جو انداز اپنایا گیا یہ انتہاپسندی ہے،اس طرح کے واقعات و سانحات کا سامنا سبھی حکومتوں کو کرنا پڑا۔ شہزاد وسیم نے کہاکہ اہم سوال یہ ہے کہ اں واقعات کا تدارک کیا ہے،افسوس اس بات کا ہے یہ مظالم اس کی ہستی کا نام لے کر کئے جاتے ہیں جو کہ رحمتہ اللعالمین ہیں۔

انہوںنے کہاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔ انہوںنے کہاکہ ہمارا تو مذہب ایک مکمل ضابطہ حیات ہے،یہ وقت ہے کہ ہم سب کی زمہ داری ہے کہ اس ذہن سازی پر کام ہو،قانون کو ہاتھ میں لینے کے روش کے خلاف حکومتی اقدامات کی ضرورت ہے۔ انہوںنے کہاکہ 20 دسمبر کو اسلامی نظریاتی کونسل کا ایک اعلامیہ آیا،اس اعلامیہ میں واضح الفاظ میں ایسے واقعات پر بیان آیا،ہم سب کو ملکر شدت پسندی کے خلاف جنگ میں آگے بڑھنا ہوگا۔ انہوںنے کہاکہ شدت پسندی کا دور ضیا الحق دور سے نظر آتا ہے شدت پسندی کا سلسلہ اب آگے بڑھ چکا ہے ، ہمیں مختلف واقعات کا سامنا کرنا پڑا ،اہم سوال یہ ہے کہ ان واقعات کا تدارک کیسے ممکن ہے ۔ انہوںنے کہاکہ اپنے بچوں کو شدت پسندی سے محفوظ کرنا ہے ،ہماری جذباتی وابستگی نبی پاک ۖکی ذات اور حرمت سے ہے جو ہمارے ایمان کا حصہ ہے،نبی کریم ۖکی ہی تعلیمات شعور اور رواداری ہے ،سیرت نبوی ۖہمیں درست راستہ دکھاتی ہے ،ہم سب کی ذمہ اری ہے کہ رواداری سے متعلق ذہن سازی کا اہتمام کرنا ہوگا ، ہمیں ملکر قانون سازی تربیت اور ذہن سازی کرنا ہوگی۔

سینٹر رضا ربانی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ ایوان میں دونوں جانب سے سیالکوٹ واقعے پر ایک سے خیال سامنے آئے۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان کی ریاست کا مطلب پاکستان کی سول اور ملٹری بیوروکریسی ہے۔ انہوںنے کہاکہ 1974 سے آج تک ریاست نے جہادی جماعتوں کو سپورٹ کیا،سیاسی ایجنڈے کو اگے بڑھانے کیلئے پاکستان کو کہاں کھڑا کیا گیا،ہماری ثقافتیں جڑیں عرب میں نہیں سندھ وادی میں ہیں۔ انہوںنے کہاکہ مقامی زبانوں اور ثقافتوں کو دبانے کے لیے باہر کا کلچر لایاگیا ،جب تک مسائل کی جڑ نہ پکڑی جائے چیلنجز آتے رہیں گے۔ انہوںنے کہاکہ شدت پسندگروہوں نے شہروں اورقبائلی علاقوں میں متوازی عدالتیں قائم کی ہیں۔ انہوںنے کہاکہ شدت پسندگروہوں نے ریاست کی رٹ کوپارہ پارہ کردیااور وہ خاموش رہی۔ انہوںنے کہاکہ ریاست پارلیمنٹ کو اپنے مقاصد کے لیے نقاب کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ سابق چیئر مین سینٹ نے کہاکہ میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کہ حکومت کی پالیسی کیا ہے؟ ،ہم طالبان کی بات تو کررہے ہیں لیکن وزیر خارجہ ایوان یہ بتائیں گے کہ افغانستان نے ہمیں باڑ لگانے سے کیوں منع کیا،ریاست اب مزید خفیہ معاہدوں کی متحمل نہیں ہوسکتی،ہر شہری کا حق ہے کہ وہ جان سکے کہ حکومت کی پالیسی کیا ہے،ریاست پارلیمان کے سامنے جوابدہ ہے۔ انہوںنے کہاکہ ہم نے ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کئے اور کہا گیا کہ اب سیز فائر کی خلاف ورزی نہیں ہوگی،آج ہمارے جوان سیز فائر کی خلاف ورزی پر شہید ہورہے ہیں۔

انہوںنے کہاکہ القاعدہ کے گروپس افغان بارڈر پر اب بھی موجود ہیں،ٹی ٹی پی کے مختلف افغانستان میں متحد ہو رہے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ ریاست بنیاد پرست اور دائیں بازو کے وار لارڈ کو سپورٹ کرتی رہی ہے،ریاست ان کے ساتھ مذاکرات کرتی ہے،ایوان کو بتایا جائے کہ ان کے ساتھ مذاکرات کس بنیاد پر اور کن شراط پر مذاکرات کر رہی ہے۔ انہوںنے کہاکہ پارلیمنٹ کو عضو معطل بنایا جا رہا ہے،جب تک ریاست پارلیمنٹ کو جوابدہ نہیں ہو گی اس وقت تک ملک آگے نہیں بڑھ سکتا ہے۔سینیٹر مشتاق احمد نے کہاکہ ایک جتھے نے سری لنکن شہری پر توہین رسالت کا الزام لگایا،لاش کو جلا کر جشن منایا گیا،یہ دہشتگردی کا بدترین واقعہ ہے ،اس واقعہ سے پاکستان کی عالمی سطح پر بدنامی ہوئی۔ انہوںنے کہاکہ سری لنکا ہمارے ہاں آنکھوں کا عطیہ دینے والا ملک ہے ،یہاں عقل کے اندھوں نے یہ بدترین واقعہ کیا،یہ ماورائے عدالت کا بدترین واقعہ ہے،علماء سمیت پورے ملک نے اس کی بھرپور مذمت کی۔ انہوںنے کہاکہ اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی مذمت کی ،سری لنکا سفارتخانے گئے۔ انہوںنے کہاکہ ملک عدنان اس ہجوم کا ہیرو ہے،حکومت پاکستان کیجانب سے تمغہ شجاعت دینے پر شکریہ ادا کرتا ہوں۔

انہوںنے کہاکہ سری لنکن حکومت کی جانب سے اس واقعے کو تحمل سے برداشت کیاگیا ،اس واقعہ کو ٹیسٹ کیس بنا کر سپیڈی ٹرائل کیا جائے،اس واقعے کے ملزمان کو سخت سزا دی جائے۔سینیٹر ساجد میر نے کہاکہ یہ واقعہ ملک اور اسلام کی بدنامی کا باعث بنا، ،اس واقعہ کے لیے مذمت کا لفظ بھی چھوٹا ہے،سری لنکن ٹیم پر جب ہم حملہ ہوا اس وقت سری لنکا کی حکومت نے اچھے رویے کا مظاہرہ کیا، علماء کا وفد جب گیا تو اس وقت بھی سری لنکن ہائی کمیشن نے اس واقعے کو مذہب سے نہیں جوڑا۔سینیٹر فیصل جاوید نے کہاکہ اس واقعے کی تمام مکاتب فکر نے مذمت کی، وزیراعظم عمران خان نے اس واقعے کا فوری ایکشن لیا،حکومت نے ملک عدنان کو خراج تحسین پیش کیا،بھارت میں ایسے واقعات روز ہوتے ہیں۔
٭٭٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں