ڈی جی آئی ایس پی آر

ستائیس مارچ کے جلسے میں ڈرامائی انداز میں کاغذ کا ٹکڑا لہرانے پرحیرت ہوئی،ڈی جی آئی ایس پی آر

راولپنڈی (گلف آن لائن)ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ 27مارچ کے جلسے میں ڈرامائی انداز میں کاغذ کا ٹکڑا لہرانے پرحیرت ہوئی،آئی ایس آئی کی سائفر سے تحقیقات میں کسی بھی قسم کی سازش کے شواہد نہیں ملے،سفیر کی رائے کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا گیا،ہر چیز کو غداری اور رجیم چینج آپریشن سے جوڑ دیا گیا، اے آر وائے چینل نے پاکستان آرمی اور لیڈرشپ کیخلاف مخصوص بیانیے کو پروان چڑھایا،ذہن سازی کے ذریعے قوم اور افواج پاکستان میں، سپاہ اور قیادت کے درمیان نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی، پاکستان اور پاکستان کے اداروں کو دنیا بھر میں بدنام کرنے کی کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی گئی،

پاکستان آرمی سے سیاسی مداخلت کی توقع کی گئی جو آئین پاکستان کے خلاف ہے، نیوٹرل اور غیرسیاسی جیسے الفاظ کو گالی بنا دیا گیا،ارشد شریف کی وفات ایک انتہائی اندوہناک واقعہ ہے اور ہم سب کو اس کا شدید دکھ ہے،خیرپختونخوا حکومت نے ارشد شریف کے حوالے سے تھریٹ الرٹ جاری کیا،اس حوالے سے وفاقی حکومت یا سیکیورٹی اداروں سے کسی قسم کی معلومات شیئر نہ کی گئیں کہ کیسے اور کس نے خیبر پختونخوا حکومت کو یہ اطلاع دی ،اطلاعات ہیں کہ ارشد شریف ملک چھوڑ کر نہیں جانا چاہتے تھے تاہم بار بار ان کو یہ باور کرایا جاتا رہا کہ ان کو خطرہ لاحق ہے،10 اگست کو باچا خان ایئرپورٹ سے ارشد ایمریٹس انٹرنیشنل کی پرواز ای کےـ637 کے ذریعے صبح چھ بجکر 10 منٹ پر دبئی کیلئے روانہ ہوئے،

ارشد شریف کو خیبر پختونخوا حکومت نے مکمل پروٹوکول فراہم کیا اور سرکاری گاڑی میں ایئرپورٹ پہنچایا گیا،سائفر اور ارشد شریف کی وفات کے حوالے سے بڑے واقعات کے حقائق تک پہنچنا بہت ضروری ہے ،ارشد شریف کے قتل کے سلسلے میں سلمان اقبال کو واپس لا کر شامل تفتیش کرنا چاہیے،کسی کو گرفتار یا کچھ کرنا ہماری صوابدید نہیں ہے، ہم صرف حکومت سے درخواست کر سکتے ہیں،انفارمیشن کی شیئرنگ کو غلط رنگ نہیں دینا چاہیے، جہاں تک تنقید کی بات ہے تو تنقید ہر ایک کا حق ہے، بطور ادارہ تنقید پر کوئی مسئلہ نہیں ہوا،اس میں کسی کو شک نہیں ہونی چاہیے کہ تعیناتی اپنے وقت پر ہوگی اور آئینی طریقہ کار کے مطابق ہوگی۔

جمعرات کو پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ یہ کانفرنس ایک ایسے موقع پر کی جا رہی ہے جب حقائق کا صحیح ادراک بہت ضروری ہے تاکہ فیکٹ، فکش اور رائے میں تفریق کی جا سکے اور سچ سب کے سامنے لایا جا سکے۔انہوںنے کہاکہ اس پریس کانفرنس کی اہمیت اور حساسیت کی وجہ سے وزیر اعظم پاکستان کو اس حوالے سے خصوصی طور پر آگاہ کیا گیا ہے بلکہ اس عوامل کا احاطہ کرنا بہت ضرری ہے جن کی بنیاد پر ایک مخصوص بیانیہ بنایا گیا اور اسی جھوٹے بیانیے کے ذریعے لوگوں کو گمراہ کیا گیا۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ اداروں اور ان کی لیڈرشپ حتیٰ کہ چیف آف آرمی اسٹاف پر بھی بے جا الزام تراشی کی گئی اور اس کی وجہ سے معاشرے میں تقسیم اور اضطراب پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔انہوں نے کہا کہ ارشد شریف کی وفات ایک انتہائی اندوہناک واقعہ ہے اور ہم سب کو اس کا شدید دکھ ہے، اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، دکھ اور رکلئیف کی اس گھڑی میں ہم سب ان کے ساتھ ہیں۔انہوںنے کہاکہ ارشد شریف کی وجہ شہرت تحقیقاتی صحافت تھی لہٰذا جب سائفر کا معاملہ سامنے آیا تو ارشد شریف صاحب نے اس پر بھی متعدد پروگرام کیے، اس حوالے سے انہوں نے اس وقت کے وزیراعظم سے کئی ملاقاتیں بھی کیں اور ان کے کئی انٹرویوز بھی کیے جس کے نتیجے میں یہ بات بھی کی گئی کہ شاید انہیں مختلف میٹنگز کے منٹ اور سائفر بھی دکھائے گئے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ سائفر اور ارشد شریف کی وفات کے حوالے سے بڑے واقعات کے حقائق تک پہنچنا بہت ضروری ہے تاکہ اس سلسلے میں کسی قسم کا ابہام اور قیاس آرائی پیدا نہ ہو اور قوم سچ جان سکے۔انہوں نے کہاکہ جہاں تک سائفر کا معاملہ ہے تو آرمی چیف نے 11مارچ کو کامرہ میں سابق وزیراعظم سے خود اس کا تذکرہ کیا تھا جس پر انہوں نے فرمایا یہ کوئی بڑے بات نہیں ہے لیکن ہمارے لیے یہ حیران کن تھا جب 27مارچ کو اسلام آباد کے جلسے میں ڈرامائی انداز میں کاغذ کا ایک ٹکڑا لہرایا اور ڈرامائی انداز میں ایک ایسا بیانیہ دینے کی کوشش کی گئی جس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں تھا۔انہوںنے کہاکہ سائفر کے حوالے سے حال ہی میں کئی حقائق منظر عام پر آ چکے ہیں جس نے اس کھوکھلی اور من گھڑت کہانی کو بے نقاب کر دیا ہے، پاکستانی سفیر کی رائے کو اپنے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا گیا۔

لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے کہا کہ 31مارچ کی نیشنل سیکیورٹی میٹنگ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی، آئی ایس آئی نے بڑے واضح اور پیشہ ورانہ انداز میں نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کو بتا دیا تھا کہ حکومت کے خلاف کسی بھی قسم کی سازش کے کوئی شواہد نہیں ملے، نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کو بریفنگ دی گئی کہ یہ پاکستانی سفیر کا ذاتی تجزیہ ہے اور پاکستانی سفیر نے جو لائحہ عمل تجویز کیا تھا وہی لائحہ عمل نیشنل سیکیورٹی کمیٹی نے دفتر خارجہ کو تجویز کیا۔انہوںنے کہاکہ آئی ایس آئی کی سائفر سے تحقیقات میں کسی بھی قسم کی سازش کے شواہد نہیں ملے اور یہ شواہد ریکارڈ کا حصہ ہیں، ہم نے شواہد کو قوم کے سامنے رکھنا چاہتے تھے تاہم یہ فیصلہ ہم نے اس وقت کی حکومت پر چھوڑ دیا کہ وہ آئی ایس آئی کی جانب سے کی گئی ان تحقیقات کو منظر عام پر لائے لیکن ایسا نہیں کیا گیا بلکہ مزید افواہیں اور جھوٹی خبریں پھیلائی گئیں جس کا مقصد سیاسی فائدہ حاصل کرنا اور ایک مخصوص بیانیہ تشکیل دینا تھا کہ حکومت کے خلاف آئینی، قانونی اور سیاسی معاملے کے بجائے عدم اعتماد کی تحریک رجیم چینج آپریشن کا حصہ تھی۔

انہوں نے کہا کہ پھر اس حوالے سے امریکا کے دنیا بھر میں رجیم چینج آپریشن کے حوالے دیے گئے اور ان کو پاکستان میں حکومت کی تبدیلی سے جوڑ دیا گیا، پاکستان کے اداروں بالخصوص فوج کی قیادت کو نشانہ بنایا گیا اور ہر چیز کو غداری اور رجیم چینج آپریشن سے جوڑ دیا گیا۔انہوںنے کہاکہ یہی وہ وقت تھا جب ارشد شریف اور دیگر کئی صحافیوں سمیت سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کو ایک مخصوص بیانیہ فیڈ کیا گیا جس کی حقیقت واضح ہوچکی ہے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ذہن سازی کے ذریعے قوم اور افواج پاکستان میں، سپاہ اور قیادت کے درمیان نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی، پاکستان اور پاکستان کے اداروں کو دنیا بھر میں بدنام کرنے کی کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی گئی، اس میڈیا ٹرائل میں اے آر وائے چینل نے بالخصوص پاکستان آرمی اور لیڈرشپ کے حوالے سے ایک جھوٹے اور سازشی بیانیے کو فروغ دینے میں ایک ‘اسپن ڈاکٹر’ کا کردار ادا کیا اور ایجنڈا سیٹنگ کے ذریعے فوج کے خلاف مخصوص بیانیے کو پروان چڑھایا۔

انہوں نے کہا کہ نیشنل سیکیورٹی کی میٹنگز اور اعلامیے کو غلط انداز میں پیش کیا گیا حتیٰ کہ دوسرے اجلاس میں اسد مجید کے حوالے سے من گھڑت خبر بھی چلائی گئی، پاکستان آرمی سے سیاسی مداخلت کی توقع کی گئی جوکہ آئین پاکستان کے خلاف ہے، نیوٹرل اور غیرسیاسی جیسے الفاظ کو گالی بنا دیا گیا۔انہوںنے کہاکہ اس تمام پروپیگنڈے کے باوجود ادارے اور خاص طور پر آرمی چیف نے نہایت تحمل کا مظاہرہ کیا، ہم نے ہر ممکن کوشش کی کہ سیاستدان آپس میں بیٹھ کر خود مسائل کا حل نکالیں لیکن ایسا ممکن نہ ہوسکا۔لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے کہا کہ یہ بھی کہا گیا کہ سائفر کو چھپایا گیا، سوال یہ ہے کہ کیا دفتر خارجہ نے سائفر چھپایا؟ جو اس وقت سائفر ہینڈل کرنے کے ذمہ دار تھے ان کے خلاف پھر کیا ایکشن لیا گیا؟ اگر نہیں لیا گیا تو کیوں نہیں لیا گیا؟ اور ان کے نام کیوں نہیں لیے جاتے؟۔انہوں نے کہا کہ لفظوں کے ہیر پھیر، گمراہ کن اور جھوٹی خبریں پھیلا کر اداروں اور ان کی قیادت کو غدار ٹھہرا کر کٹہرتے میں کھڑا کردیا گیا۔

انہوںنے کہاکہ مرحوم ارشد شریف علاوہ دیگر صحافیوں اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ نے بھی سائفر کے حوالے سے باتیں کیں اور بہت سخت باتیں بھی کیں، ارشد شریف تو نومبر 2021 سے اے آر وائے چینل کے پلیٹ فارم سے اداروں پر تنقید کررہے تھے جس میں انہوں نے مختلف اداروں کے حوالے سے سخت تنقیدی پروگرامز بھی کیے تاہم اس کے باوجود ان کے حوالے سے ہمارے دل میں کسی قسم کے منفی جذبات تھے نہ ہیں، کئی دیگر صحافی بھی اس پر بات کررہے تھے لیکن وہ پاکستان میں نہیں رہے، آج بھی وہ بہت سخت سوالات اٹھا رہے ہیں جو ان کا آئینی حق ہے۔

لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے کہا کہ تمام سائفر ڈرامے کے دوران ہم نے جب بھی کسی چینل یا صحافی سے ہم نے بات کی تو یہی کہا کہ بنا ثبوت اور من گھڑت مفروضات پر غداری اور سازشوں کے الزامات ادارے کی قیادت پر نہ لگائے گئے اور فوج کے غیرسیاسی رینے کے موقف کو متنازع نہ بنایا جائے۔انہوں نے کہا کہ آج دیکھنا یہ ہو گا کہ مرحوم ارشد شریف کے حوالے سے اب تک سامنے آنے والے حقائق کیا ہیں، پانچ اگست 2022 کو خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے ارشد شریف کے حوالے سے ایک تھریٹ الرٹ جا ری کیا گیا۔انہوںنے کہاکہ ہماری اطلاع کے مطابق یہ تھریٹ الرٹ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کی خاص ہدایت پر جاری کیا گیا جس میں شبہ ظاہر کیا گیا کہ افغانستان میں مقیم تحریک طالبان پاکستان کے گروپ نے اسپن بولدک میں ایک میٹنگ کی ہے جو ارشد شریف کو راولپنڈی اور ملحقہ علاقوں میں نشانہ بنانا چاہتے ہیں، اس حوالے سے وفاقی حکومت یا سیکیورٹی اداروں سے کسی قسم کی معلومات شیئر نہ کی گئیں کہ کیسے اور کس نے خیبر پختونخوا حکومت کو یہ اطلاع دی کہ ارشد شریف صاحب کو نشانہ بنایا جائے گا۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ ماضی میں ہم سے غلطیاں ہوئی ہوں گی مگر ہم سازشی اور غدار نہیں ہوسکتے اور مارچ میں قمر جاوید باجوہ کو عہدے میں غیر معینہ مدت تک توسیع کی پیش کی گئی تھی۔

انہوںنے کہاکہ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تھریٹ الرٹ مخصوص سوچ کے تحت جاری کیا گیا جس کا مقصد شاید ارشد شریف صاحب کو ملک چھوڑنے پر آمادہ کرنا تھا جبکہ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ ارشد شریف ملک چھوڑ کر نہیں جانا چاہتے تھے لیکن بار بار ان کو یہ باور کرایا جاتا رہا کہ ان کو خطرہ لاحق ہے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ 8اگست 2022 کو شہباز گل کے اے آر وائے چینل پر بغاوت پر اکسانے کے متنازع بیان کی تمام مکاتب فکر نے مذمت کی اور اسے ریڈ لائن کراس کرنے کے مترادف قرار دیا اور 9 اگست کو انہیں گرفتار کیا گیا۔انہوںنے کہاکہ اس متنازع اسپیشل ٹرانسمیشن کے حوالے سے اے آر وائے کے سینئر ایگزیکٹو وائس پریذیڈنٹ کے وائس پریذیڈنٹ سے تحقیقات کی گئیں تو معلوم ہوا کہ اے آر وائے کے چیف ایگزیکٹو سلمان اقبال نے سلمان اقبال کی گرفتاری کے فوراً بعد عماد یوسف کو ہدایات دیں کہ ارشد شریف کو جلد از جلد پاکستان سے باہر بھیج دیا جائے، اس کے جواب میں انہوں نے سلمان اقبال کو بتایا کہ ارشد شریف پشاور سے دبئی کیلئے روانہ ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ پھر اس حوالے سے متواتر یہ بیانیہ بنایا جاتا رہا کہ ارشد شریف کو بیرون ملک قتل کر دیا جائیگا، 9 اگست 2022 4 بجکر 40 منٹ پر ارشد شریف کی کراچی سے دبئی کیلئے ایک ٹکٹ بک کی گئی جو کہ اے آر وائے گروپ کے اسسٹنٹ منیجر پلاننگ اینڈ ایڈمنسٹریشن عمران کے کہنے پر فضل ربی نامی ٹریول ایجنٹ نے ساڑھے پانچ لاکھ روپے وصول کرنے کے بعد بْک کی۔لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے کہا کہ اس ٹریول پلان کے مطابق 9 ستمبر 2022 کو ارشد شریف کو پاکستان واپس آنا تھا، 10 اگست کو باچا خان ایئرپورٹ سے ارشد ایمریٹس انٹرنیشنل کی پرواز ای کےـ637 کے ذریعے صبح چھ بجکر 10 منٹ پر دبئی کے لیے روانہ ہوئے، ارشد شریف کو اس دوران خیبر پختونخوا حکومت نے مکمل پروٹوکول فراہم کیا اور سرکاری گاڑی میں انہیں ایئرپورٹ پہنچایا گیا۔

انہوںنے کہاکہ ارشد شریف کے قتل کے سلسلے میں سلمان اقبال کو واپس لا کر انہیں شامل تفتیش کرنا چاہیے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہم بھی حکومت کے نیچے ایک ادارہ ہیں اور قانون کے مطابق ہمارے پاس جو چیزیں ہیں اس کے مطابق ہم کام کرتے ہیں، ہم نے پہلے بھی ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ اگر کوئی فوج کے خلاف بات کرتا ہے یا کوئی تہمت لگاتا ہے تو جیسے آزادی اظہار رائے کا حق پاکستان کا آئین دیتا ہے اسی طرح کردار کشی کی اجازت آئین بالکل نہیں دیتا، خاص طور پر اداروں پر بات کرنے کی اجازت بھی پاکستان کا آئین نہیں دیتا۔انہوں نے کہا کہ اس قانون پر عملدرآمد حکومت پاکستان کو کرنا ہوتا ہے، اگر کسی ادارے پر کوئی انگلیاں اٹھا رہا ہے تو حکومت وقت نے اس کے خلاف ایکشن لینا ہے، اس مد میں جب بھی کوئی اس طرح کی چیز ہوئی ہے تو ہم نے حکومت کے ذریعے اس کو اپروچ کیا ہے، حکومت ان کے بارے میں جو بھی ایکشن لیتی ہے یہ ان کی صوابدید ہے، کسی کو گرفتار یا کچھ کرنا ہماری صوابدید نہیں ہے، ہم صرف حکومت سے درخواست کر سکتے ہیں۔

انہوںنے کہاکہ ہمارے پاس اس طرح کی کوئی انفارمینش نہیں تھی، جب خیبرپختونخوا حکومت نے تھریٹ الرٹ جاری کیا تو ہمارے پاس ایسی کوئی انفارمیشن نہیں تھی، ادارے کی جانب سے ایسی کوئی انفارمیشن نہیں شیئر کی گئی، اس کو بعد میں جانچا بھی گیا کہ یہ انفارمیشن کہاں سے آئی۔انہوں نے کہا کہ (فیصل واڈا کی) گزشتہ روز والی پریس کانفرنس پر میں کوئی تبصرہ نہیں کر سکتا لیکن میرے خیال میں جو انکوائری کمیشن بنا ہے وہ ان تمام لوگوں اور شواہد کو دیکھے گا، اسی لیے میں نے کہا کہ اس کیس کی غیرجانبدار اور شفاف تحقیقات ہوں جس نوعیت کے انٹرنیشنل اور فارن ایکسپرٹس اس میں شامل کیے جائیں، ٹیکنالوجکلی بھی اس کو دیکھیں، اس کے بغیر اگر یہ کیس اپنے منطقی انجام تک نہ پہنچا تو اس کا بہت نقصان ہوگا، اس لیے اگر انہوں (فیصل واڈا) نے کوئی بات کی ہے اور اگر وہ اس کے بارے میں کلیئر ہیں تو مجھے یقین ہے کہ انکوائری کمیشن اس چیز کو دیکھے گا۔ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ انفارمیشن کی شیئرنگ کو غلط رنگ نہیں دینا چاہیے، جہاں تک تنقید کی بات ہے تو تنقید ہر ایک کا حق ہے، بطور ادارہ تنقید پر کوئی مسئلہ نہیں ہوا، مسئلہ تب ہوتا ہے جب ایک چیز تنقید سے بڑھ کر الزام تراشی اور من گھڑت پروپیگنڈے کی ڈومین میں چلی جائے، یہ ایک ایسی چیز ہے جس سے ہمیں ہر قیمت پر احتراز برتنا چاہیے، خاص طور پر تب جب ہم اپنے اداروں کے بارے میں بات کررہے ہوں۔انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس ایسا کوئی فورم نہیں ہے جہاں ہم ہر روز آکر کسی کی کہی ہوئی بات کا جواب دے سکیں، نہ یہ ہمیں یہ سوٹ کرتا ہے نہ ہمیں یہ کرنا چاہیے، اسی لیے اداروں کا دفاع حکومت وقت کرتی ہے لیکن تنقید پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ اس میں کسی کو شک نہیں ہونی چاہیے کہ تعیناتی اپنے وقت پر ہوگی اور آئینی طریقہ کار کے مطابق ہوگی۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ مشہور مقولہ ہے کہ ہر کسی کو اپنی مرضی کی رائے کا حق ہے لیکن اپنے مرضی کے حقائق کا نہیں، رائے کا اظہار کریں لیکن حقائق مینوفیکچر نہ کریں، خاص طور پر ایسے وقت میں جب بدقسمتی سے پروپیگنڈا اور ففتھ جنریشن وار فیئر کی اساس یہی ہو کہ حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جائے اور ان کی بنیاد پر افواہیں اور پروپگینڈا کیا جائے۔مارچ میں آرمی چیف کو غیرمعینہ مدت تک ملازمت کرنے والی شخصیت سے متعلق سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ جتنی انفارمیشن انہوں نے شیئر کی ہے میرے خیال میں وہ اتنی ہی شیئر کر سکتے ہیں، اس سے مزید اگر وہ شیئر کر سکتے تو ضرور شیئر کرتے۔انہوںنے کہاکہ مارچ 2021 کے بعد سینیٹ کا الیکشن ہوا تھا جس میں آپ جانتے ہیں کہ کیا ہوا تھا، اس کے بعد کسی بھی الیکشن میں آپ دیکھ لیں، ضمنی انتخابات، کنٹونمنٹ الیکشنز، بلدیاتی انتخابات دیکھ لیں، رواں برس ہونے والے انتخابات دیکھ لیں، کہیں پر بھی بھی فوج یا آئی ایس آئی کی مداخلت کا کوئی ثبوت کسی کو ملا ہو تو بتائیں، بار بار دھاندلی کا کہا جاتا ہے، ہم نے بارہا اس بارے میں بات کی کہ اگر کوئی ثبوت ہے تو لیکر آئیں، مجھے یقین ہے کہ کوئی ثبوت نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو بہت سے انٹرنیشنل چیلنجز کا سامنا ہے، پاکستان دنیا میں اسٹریٹجیکلی ایک اہم ملک ہے، اس کے چیلنجز ہمیشہ رہے ہیں اور ہمیشہ رہیں گے، ہر چیلنج کے ساتھ مواقع بھی پیدا ہوتے ہیں، اس لیے عالمی سطح پر ہمارے لیے بہت سے مواقع بھی موجود ہیں، ان سے نمٹنے کیلئے تمام ادارے اپنا اپنا کام کررہے ہیں اور انشا اللہ ہم اس سے نمٹ لیںگے، اس حوالے سے فکر کی کوئی بات نہیں ہوئی ہے، اس بارے میں ہر ایک کی رائے ہوسکتی ہے جس کے مطابق آگے چلا جا سکتا ہے تاہم ہر کام کرنے کا ایک طریقہ موجود ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں