سپریم کورٹ

از خود نوٹس،ارشد شریف کو باہر کیوں جانا پڑا تفتیش کی جائے، سپریم کورٹ

اسلام آ باد (کورٹ رپورٹر ) سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے کہ ارشد شریف کو باہر کیوں جانا پڑا اس کی تفتیش کریں، اور دوسرے مرحلے میں ارشد شریف کے یو اے ای چھوڑنے کے پہلو کی تفتیش کریں۔ سپریم کورٹ میں ارشد شریف قتل ازخودنوٹس کی سماعت ہوئی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور کیس کے تفتیشی افسر عدالت میں پیش ہوئے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت میں موقف پیش کیا کہ کیس کا ایک پہلو پاکستان،دوسرا یو اے ای تیسرا کینیا میں ہے، پاکستان کے حوالے سے تحقیقات کافی حد تک مکمل کر لی ہیں۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کینیا کے حکام نے دسمبر میں دو مرتبہ جے آئی ٹی کو آنے سے منع کیا، پہلے کرسمس کی چھٹی کا کہا گیا،بعد میں بتایا گیا متعلقہ حکام تعطیلات پر ہیں، جے آئی ٹی نے 41 گواہوں کے بیان قلمبند کئے ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا پاکستان سے باہر بھی کسی کا بیان ریکارڈ ہوا ہے؟۔ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ کیس میں نامزد ملزمان پیش نہیں ہوئے، تفتیش کے بعد انٹرپول سے رابطہ کریں گے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے حکم دیا کہ کیس کا پہلا مرحلہ ہے کہ ارشد شریف کو ملک سے باہر کیوں جانا پڑا، کیا پاکستان میں مقدمات درج ہونے کی تحقیقات مکمل ہوگئی ہیں؟۔

عدالت نے تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ حکومت کو باہمی قانونی تعاون کیلئے کب درخواست کی تھی۔ جس پر تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ کینیا کی جانب سے جواب آنے پر باہمی قانونی امداد کی درخواست کی تھی۔ چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ اس کا مطلب ہے حکومت نے کینیا کے حکام سے رابطے میں تاخیر کی، جو کام جے آئی ٹی کو 20 دن پہلے کرنا چاہیے تھا وہ کل کیا گیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اقوام متحدہ سے مدد لینے پر غور کریں، اور اقوام متحدہ سے تحقیقات میں مدد کیلئے وزارت خارجہ سے مشورہ کریں۔ جسٹس مظاہر نقوی نے تائید کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کے گزشتہ حکم میں واضح ہے کہ اقوام متحدہ سے رابطے پر غور کریں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کینیا کو کل باہمی قانونی تعاون کیلئے خط لکھا ہے۔ جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ کینیا کو کل ہی کیوں خط لکھا،پہلے کیا کر رہے تھے، ارشد شریف کے قتل کو لے کر عدالت بہت سنجیدہ ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ارشد شریف قتل حکومت کیلئے ٹیسٹ کیس ہے، مرحوم صحافی کے کچھ ڈیجیٹل آلات تھے جو ابھی تک نہیں ملے، کیا جے آئی ٹی کو یہ پتہ چلا کہ وہ آلات کدھر ہیں، پتہ چلائیں وہ ڈیجیٹل آلات کینیا پولیس،انٹیلیجنس یا ان دو بھائیوں کے پاس ہیں۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے حکم دیا کہ ارشد شریف کو باہر کیوں جانا پڑا اس کی تفتیش کریں، دوسرے مرحلے میں ارشد شریف کے یو اے ای چھوڑنے کے پہلو کی تفتیش کریں۔ عدالت میں مرحوم ارشد شریف کی بیوہ سمعیہ ارشد نے جے آئی ٹی کے دو ممبران پر اعتراض اٹھاتے ہوئے استدعا کی کہ جے آئی ٹی کے دو ارکان ہمارے نامزد ملزمان کے ماتحت ہیں، اے ڈی خواجہ اور کچھ دیگر ریٹائرڈ افسران کو جے آئی ٹی میں شامل کیا جائے۔ چیف جسٹس نے سمعیہ ارشد کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ریٹائرڈ افسران سے تفتیش نہیں کرائی جا سکتی۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ تفتیش کب تک مکمل ہونے کا امکان ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ جے آئی ٹی 15 جنوری کو یو اے ای پھر کینیا جائے گی، تفتیش مکمل ہونا کینیا اور یو اے ای حکام کے تعاون سے مشروط ہے، جے آئی ٹی ارکان کے 15 دن کینیا میں رہنے کا امکان ہے۔ جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیئے کہ تفتیشی رپورٹ پر بہت کچھ کہ سکتے ہیں لیکن ابھی خاموش ہیں، عدالت کو تفتیش کی نگرانی کرنی آتی ہے۔ سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت فروری کے پہلے ہفتے تک ملتوی کر دی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں