طلبہ کو ڈپریشن

یونیورسٹی جانے والے طلبہ کو ڈپریشن کے زیادہ خطرے کا سامنا ہے، تحقیق

لندن (نیوز ڈیسک)حالیہ تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ دفتر جانے والے لوگوں کے مقابلے میں یونیورسٹی کے طلبہ ڈپریشن اور انزائٹی کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔لندن میں لانسیٹ پبلک ہیلتھ نامی جریدے میں شائع ہونے والی تحقیق میں طلبہ کے ذہنی صحت اور ڈپریشن اور اضطراب کے تعلق کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔پچھلی تحقیق کو بھی چیلنج کیا گیا جس میں بتایا گیا تھا کہ طلبہ کی ذہنی صحت دفتر جانے والے لوگوں کی طرح ہی کام کرتی ہے یا ان سے بہتر ہے۔

محققین نے انگلینڈ میں لانگیٹوڈینل اسٹڈیز ینگ پیپل کے اعداد و شمار کا استعمال کیا، جس میں 1989 سے 1990 میں پیدا ہونے والے 4 ہزار 832 نوجوان شامل تھے، جن کی 2007 سے 2009 میں عمریں 18ـ19 سال تھیں اور 1998 سے 1999 میں پیدا ہونے والے 6 ہزار 128 نوجوانوں کو شامل کیا گیا، جن کی 2016 سے 2018 میں عمریں 18 سے 19 سال کی تھیں، دونوں مطالعات میں نصف سے زیادہ نوجوانوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی تھی۔سروے میں موجود تمام نوجوانوں نے اپنی ذہنی صحت سے متعلق سوالوں کا جواب دیا تاکہ ڈپریشن، اضطراب کی علامات کی تحقیقات کی جاسکیں۔

محققین نے 18ـ19 سال کی عمر میں طلبہ اور غیر طلبہ کے درمیان ڈپریشن اور اضطراب کی علامات میں تھوڑا سا فرق پایا، یہاں تک کہ سماجی اقتصادی حیثیت، والدین کی تعلیم اور الکحل کے استعمال سمیت عوامل پر بھی قابو پایا۔محققین کو معلوم ہوا کہ یونیورسٹی جانے اور نہ جانے والے نوجوانوں کے درمیان ڈپریشن اور اضطراب کی علامات میں زیادہ فرق نہیں تھا۔ تحقیق کے نتائج کنگز کالج لندن کی جانب سے کی گئی تحقیق کے مطابق ہیں، جس میں یونیورسٹی کے طلبہ میں ذہنی صحت کے مسائل میں نمایاں اضافہ کا بھی انکشاف ہوا ہے۔کنگز کالج کی تحقیق کے مطابق یونیورسٹی کے طلبائ میں دماغی صحت کے مسائل کا پھیلاؤ تقریباً 3 گنا بڑھ گیا ہے، جو 17ـ2016 میں 6 فیصد سے بڑھ کر 2022ـ23 میں 16 فیصد ہو گیا ہے۔

دونوں مطالعات میں یونیورسٹی کے طلبہ میں ذہنی صحت کے مسائل میں اضافہ معلوم ہوا ہے۔تحقیق میں انکشاف ہوا کہ یونیورسٹی چھوڑنے پر غور کرنے والے طلبہ میں مالی پریشانی کا تناسب 2022 اور 2023 کے درمیان 3.5 فیصد سے بڑھ کر 8 فیصد ہو گیا۔تحقیق میں بتایا گیا کہ چونکہ طلبہ پڑھائی کے دوران زیادہ تر ملازمتیں کرتے ہیں اس لیے ذہنی صحت کی مشکلات کا سامنا کرنے کے امکانات میں بتدریج اضافہ ہوا ہے۔مطالعہ کی مصنفہ اور یونیورسٹی آف لندن کے محکمہ نفیسات کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر جیما لیوس کا کہنا ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے لیے یونیورسٹی میں داخلے کے بعد پہلے دو سال ترقی کے لیے اہم وقت ہوتے ہیں، لہٰذا اگر ہم اس دوران نوجوانوں کی ذہنی صحت کو بہتر بنا سکیں، تو اس سے ان کی صحت اور تندرستی کے ساتھ ساتھ ان کی تعلیمی کامیابیوں کے لیے طویل مدتی فائدے ہو سکتے ہیں۔

تحقیق میں انکشاف ہوا کہ 25 سال کی عمر تک گریجویٹ اور نانـگریجویٹ طلبا کے درمیان ذہنی صحت میں فرق ختم ہو گیا تھا۔رپورٹ میں تجویز کیا گیا کہ اگر اعلیٰ تعلیم سے وابستہ ذہنی صحت کے ممکنہ خطرات کو ختم کیا جائے تو 18 سے 19 سال کی عمر کے افراد میں ڈپریشن کے واقعات میں 6 فیصد تک کمی لائی جا سکتی ہے۔گارڈین کی رپورٹ کے مطابق تحقیق کے مصنف اور یونیورسٹی آف لندن کے شعبہ نفسیات کے محقق ڈاکٹر ٹیلا میک کلاؤڈ نے تجویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ اعلٰی تعلیم کے لیے مالی دباؤ کی وجہ سے ذہنی صحت خراب ہو سکتی ہے۔ڈاکٹر ٹیلا میک کلاؤڈ کے مطابق پہلے کی تحقیق میں یونیورسٹی کے طلبہ اور دماغی صحت کے مسائل کے درمیان کوئی مضبوط تعلق کے شواہد نہیں ملے تھے، تاہم اس نئی تحقیق میں انہیں معلوم ہوا کہ دونوں کے درمیان گہرا تعلق ہوسکتا ہے۔انہوںنے کہاکہ بڑھتے ہوئے مالی دباؤ اور وسیع تر معاشی اور سماجی تناظر میں اعلیٰ گریڈ حاصل کرنے سے متعلق طلبا کو خدشات کا سامنا ہوسکتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں