رانا ثنا اللہ

پوری ذمہ داری سے کہتا ہوں شہباز گل پر دوران تحویل کوئی تشدد نہیں ہوا، رانا ثنا اللہ

اسلام آباد (گلف آن لائن)وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ میں پوری ذمہ داری سے اس بات کی تردید کرتا ہوں کہ شہباز گل پر پولیس کی تحویل کے دوران کوئی تشدد ہوا ہے،شہباز گل نے عمران خان کی ہدایت پر متنازع بیان دیا جس میں شہدا کے تقدس کو پامال کیاگیا، ان کی اہل خانہ کے جذبات کو مجروح کیا گیا،ریاست پاکستان پر ایسے الزامات بھی لگا دئیے گئے جو کبھی دشمن ملک افغانستان نے بھی نہیں لگائے،عمران خان کا بیان قابل مواخذہ، تشدد کے ڈرامے کا مقصد پی ٹی آئی کے ملک دشمن بیانیے سے توجہ ہٹانا ہے،عمران خان کی دھمکی آمیز تقریر پر وزارت قانون، ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد سے رائے لے رہے ہیں، عمران خان لانگ مارچ کریں، انشا اللہ 25 مئی سے زیادہ موثر جواب ملے گا، ہماری تیاری پوری ہے، اگر آپ نئے کوئی حرکت کی تو انشا اللہ اسی روز فیصلہ ہو جائے گا۔

اتوار کو یہاں پریس کانفرنس کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ نے کہا کہ شہباز گل نے عمران خان کی ہدایت پر متنازع بیان دیا جس میں شہدا کے تقدس کو پامال کیاگیا، ان کیاہل خانہ کے جذبات کو مجروح کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ اس بیان میں ریاست پاکستان پر ایسے الزامات بھی لگا دئیے گئے جو کبھی دشمن ملک افغانستان نے بھی نہیں لگائے۔وزیر داخلہ نے کہ شہباز گل نے 8 اگست کو طے شدہ منصوبے کے تحت متنازع بیان دیا، اس کی باقاعدہ ریکارڈنگ موجود ہے کہ کس طرح چینل کے لوگ اس پروگرام کو فکس کرتے رہے کہ اتنے بجے فون آئے گا، اتنے بجے یہ سوال کیا جائے گا اور اس کے جواب میں 14 منٹ آپ نے یہ گفتگو کرنی ہے جس میں کوئی خلل نہیں ہوگا۔

رانا ثنا اللہ نے کہ یہ متنازع بیان دراصل عمران خان کا بیانیہ اور پی ٹی آئی کا ایجنڈا ہے، اب اس میں کوئی شک نہیں رہا کہ یہ غیرملکی ایجنڈا ہے جسے 8 اگست کو (اے اٰر وائے )چینل پر آن ائیر کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ شہباز گل کے اس بیان میں فوج کے رینک اینڈ فائل میں سب آرڈینیٹس کو یہ ترغیب دی گئی اور اکسایا گیا کہ آپ اپنے کمانڈ کا حکم نہ مانیں۔انہوں نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ بہت سے سیاستدانوں نے بہت سے موقعوں پر اسٹیبلمشنٹ کی سیاست میں مداخلت پر بات کی ہوگی، کسی کا نام بھی لیا ہوگا، اسٹیبلسمنٹ کے بہت سارے افسران نے ریٹائرمنٹ کے بعد اس پر کتابیں بھی لکھیں اور اپنی غلطیوں کا اعتراف کیا لیکن کسی نے بھی کبھی فوج میں کمانڈ کی حکم عدولی کی ترغیب نہیں دی۔

رانا ثنا اللہ نے کہا کہ شہباز گل کے اس بیان پر 9 اگست کو ان پر مقدمہ درج کیا گیا اور انہیں گرفتار کیا گیا اور 24 گھنٹوں کے اندر انہیں جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا، اس کی فوٹیج ہم بھی جاری کردیں گے تاہم وہ میڈیا کے پاس بھی موجود ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ کس طرح ادھر ادھر دیکھ رہے تھے کیونکہ وہاں ان کے لیے کوئی نعرے بازی کرنے نہیں آیا تھا مگروہ مسکرا رہے تھے اور جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے کوئی شکایت نہیں کی کہ ان تشدد کیا گیا ہے اور میڈیا کے سامنے بھی کوئی ایسی بات نہیں کی۔وزیر داخلہ نے کہا کہ 12 اگست کو جوڈیشل ریمانڈ پر جانے سے پہلے شہباز گل 3 روز تک پولیس کی کسٹڈی میں رہے، ان 3 روز کے حوالے سے میں نے اپنی پوری تسلی کی ہے، آئی جی اسلام آباد اور پولیس کے تفتیشی افسران سے بھی پوچھا اور اپنے طور بھی معلومات لیں، میں پوری ذمہ داری سے اس بات کی تردید کرتا ہوں کہ شہباز گل پر پولیس کسٹدی کے دوران کوئی تشدد ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں اس بات کی گارنٹی دینے کو بھی تیار ہوں کہ جتنا عرصہ وہ پولیس کی تحویل میں رہے ہیں ان کو وقت پر کھانا ملتا رہا، جو انہوں نے کھانے کا مطالبہ کیا ان کو وہی دیا گیا اور ناشتہ بھی دیا گیا، تفتیش کا عمل ضرور مکمل کیا گیا لیکن اس دوران کسی قسم کے ٹارچر ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔رانا ثنا اللہ نے کہا کہ 12 اگست کو شہباز گل کو جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل بھیج دیا گیا، 17 اگست تک 6 روز پر کسی فارم پر بھی شہباز گل کی جانب سے خود پر تشدد کی کوئی شکایت درج نہیں کروائی گئی۔

انہوں نے کہا کہ 17 اگست کو جب ان کا دوبارہ ریمانڈ دیا گیا اور مزاحمت کے بعد اسلام آباد پولیس ان کو لے گئی تو ان کی حالت خراب ہونے لگی تاہم کسی تشدد کی بنیاد پر ان کی صحت کی خرابی سامنے نہیں آئی۔انہوں نے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) بطور سیاسی جماعت کسی قسم کے جسمانی یا ذہنی تشدد اور ٹارچر کے سخت مخالف ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی قیدات میں بطور حکومت اور بطور سیایس جماعت ہمارا یہ موقف ہے کہ ٹارچر انسان کی کی عزت نفس کی تذلیل ہے جس کی ضمانت پاکستان کا آئین دیتا ہے، یہ آئین کی خلاف ورزی ہے، ہم کسی طور پر اس کے حق میں نہیں ہیں۔رانا ثنا ء اللہ نے کہا کہ عمران خان کے دور حکومت میں ہم خود اس تشدد کا سامنا کر چکے ہیں، ہمارے قائد نواز شریف سے لے کر ہماری جماعت کی پوری اعلٰی قیادت سے نیچے تک ذہنی اور جسمانی ٹارچر کا شکار رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ شہباز گل نے اب تک پولیس اور عدالت کے سامنے جو بیانات دیے ہیں ان میں انہوں نے کہیں ایسی کوئی بات نہیں کی کہ ان پر جنسی تشدد ہوا ہے تاہم عمران خان نے یہ الزام بھی لگا دیا۔انہوں نے کہا کہ پہلے ان لوگوں نے شہدا کی تذلیل کرنے کی کوشش کی جس کی پوری قوم نے یک زبان ہو کر مذمت کی اس کے بعد انہوں نے شہباز گل کے ذریعے اپنا بیانیہ پیش کیا جس پر اس قدر ردعمل آیا کہ یہ لاجواب ہوگئے اور اس بیان کا دفاع نہیں کر سکے، اس سے دھیان ہٹانے کے لیے انہوں نے شہباز گل پر تشدد کی کہانی گھڑی ہے۔انہوں نے کہ اب تشدد کے اس بیانیے میں شدت پیدا کرنے کے لیے اب نئی سے نئی ایسی باتیں کی جا رہی ہیں جن پر کسے جھوٹ اور فراڈ کرنے والے شخص کو بھی شرم آئے لیکن یہ لوگ نہیں کترا رہے۔

انہوں نے کہا کہ میں پوری قوم کو واضح کرنا چاہتا ہوں کہ تشدد کا یہ سارا ڈرامہ لسبیلا کے شہدا کے خلاف اور ٹی وی چینل (اے آر وائی )پر دئیے گئے ان کے بیانے سے توجہ ہٹانے کیلئے کیا جارہا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم تشدد کے خلاف ہیں تاہم اپنے متنازع بیانیے سے توجہ ہٹانے کے لیے تشدد کے ڈرامے کے بھی ہم مخالف ہیں اور اسے ہم پوری طرح بے نقاب کریں گے۔رانا ثنا اللہ نے کہا کہ گزشتہ روز عمران خان نے اپنی تقریر میں بہت ساری باتیں کی ہیں لیکن اس کا ایک حصہ میں آپ سب سن لیں۔ پریس کانفرنس کے دوران وزیر داخلہ کی جانب سے عمران خان کی گزشتہ روز ایف نائن اسلام آباد میں کی جانے والی تقریر کی ویڈیو چلائی گئی جس میں عمران خان نے ڈی آئی جی اور خاتون مجسٹریٹ کے خلاف ایکشن لینے اور مقدمہ کرنے کی تنبیہ کی تھی۔

رانا ثنا اللہ نے عمران خان کے اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے ایک خاتون جج کو نام لے کر دھمکیاں دیں اور افسرز کو کہا کہ آپ کو شرم آنی چاہیے، عمران خان صاحب! آپ کو خود اس روز شرم کیوں نہیں آئی جب آپ نے ایف آئی کے بابر بخت کو تھانے میں بھیجا تھا اور وہاں اس نے آٹھ، دس مسلح لوگوں کے ہمراہ محسن بیگ پر تشدد کیا اور اس کی ویڈیو بنا کر آپ کو بھیجی گئی، وزیراعظم ہائوس میں بیٹھ کر وہ ویڈیو دیکھتے ہوئے آپ کو شرم کیوں نہیں آئی؟۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز عمران خان کی تقریر کے دوران دیا جانے والا بیان قابل مواخذہ ہے، اس حوالے سے جائزہ لیا جارہا ہے، میرے وزارت نے اس بارے میں رپورٹ تیار کی ہے کہ آیا ان کا یہ بیان ان کے گزشتہ دونوں بیانیوں کا تسلسل ہے اور کیا اس تقریر کو بھی اس مقدمے کا حصہ بنا کر عمران خان کو گرفتار کیا جائے یا انہیں اس مقدمے میں بطور ملزم نامزد کیا جائے یا پھر اس پر علیحدہ سے ایک مقدمہ درج کیا جائے۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ اس رپورٹ پر ہم وزارت قانون اور ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد سے رائے لے رہے ہیں کہ عمران خان کی اس تقریر پر علیحدہ سے مقدمہ ہونا چاہیے یا پھر اس مقدمے کا حصہ بنا کر عمران خان کو نامزد کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ یہ بات میں واضح کردوں کہ اگر یہ سمجھتے ہیں کہ یہ اپنے ان ڈراموں کے ذریعے قوم کی توجہ اپنے اصل ایجنڈے سے ہٹا سکتے ہیں تو اس میں ہم انہیں کسی طور پر بھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔انہوں نے کہا کہ عمران خان نے لانگ مارچ کا کہا ہے، آپ لانگ مارچ کریں، ان شا اللہ 25 مئی سے زیادہ موثر جواب ملے گا، ہماری تیاری پوری ہے، اگر آپ نئے کوئی حرکت کی تو ان شا اللہ اسی روز فیصلہ ہو جائے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں