دستخط کی تردید

صدرِ مملکت کا بلوں پر دستخط نہ کرنے کا معاملہ سپریم کورٹ پہنچ گیا

اسلام آباد (گلف آن لائن) صدرِ مملکت عارف علوی کے آفیشل سیکریٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر دستخط نہ کرنے کا معاملہ سپریم کورٹ پہنچ گیا۔سپریم کورٹ میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل معاملے کی تحقیقات کے لیے درخواست دائر کر دی گئی۔

درخواست ایڈووکیٹ ذوالفقار بھٹہ نے دائر جس میں وفاقی حکومت کو فریق بنایا گیا۔درخواست میں استدعا کی گئی کہ معاملے کی تحقیقات کے لیے حکومت کو دس دن میں سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا حکم دیا جائے۔درخواست کے زیر التوا ہونے تک آفیشل سیکریٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ پر عملدرآمد روک دیا جائے۔

صدرِ مملکت کے بیان کے بعد قانون سازی پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ آفیشل سیکریٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ ترمیمی ایکٹ سے براہ راست عوام کے حقوق وابستہ ہیں۔یہاں واضح رہے کہ اپنے ٹوئٹ میں صدر مملکت عارف علوی نے انکشاف کیا تھا کہ میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے آفیشل سیکرٹس ترمیمی بل 2023ءاور پاکستان آرمی ترمیمی بل 2023ءپر دستخط نہیں کیے کیونکہ میں ان قوانین سے متفق نہیں تھا۔

انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے عملے سے کہا کہ وہ بغیر دستخط شدہ بلوں کو مقررہ وقت کے اندر واپس کر دیں تاکہ انہیں غیر م¶ثر بنایا جا سکے، میں نے ان سے کئی بار تصدیق کی کہ آیا وہ واپس جا چکے ہیں اور مجھے یقین دلایا گیا کہ وہ جا چکے ہیں۔صدر عارف علوی نے مزید کہا کہ مجھے آج پتا چلا کہ میرا عملہ میری مرضی اور حکم کے خلاف گیا، اللہ سب جانتا ہے، وہ ان شاءاللہ معاف کر دے گا، میں ان لوگوں سے معافی مانگتا ہوں جو اس سے متاثر ہوں گے۔

بعدازاں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری کو اپنے سیکرٹری کی خدمات واپس کرنے کے لیے خط لکھا۔ ایوانِ صدر نے وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری کے نام خط میں کہا کہ کل کے واضح بیان کے پیش نظر ایوان صدر نے صدر مملکت کے سیکرٹری کی خدمات اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو واپس کر دیں۔

خط میں کہا گیا ہے کہ صدر مملکت کے سیکرٹری وقار احمد کی خدمات کی مزید ضرورت نہیں، ان کی خدمات اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو واپس کی جاتی ہیں۔ ایوانِ صدر نے خط میں کہا ہے کہ پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کی 22 ویں گریڈ کی افسر حمیرا احمد کو صدر مملکت کی سیکرٹری کے طور پر تعینات کیا جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں